Maktaba Wahhabi

795 - 924
کی سندیں حاصل کیں ۔ آپ کے نامور اساتذہ میں مولانا عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ ، مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ ، حافظ عبدالسلام بھٹوی، حافظ خالد بن بشیر مرجالوی، حافظ محمد بنیامین طور، مولانا عبدالرشید اٹاروی، دکتور اکرم علی، مفتی عبدالرحمان عابد، حکیم شبیر احمد واں ، حکیم محمد شریف فیصل آبادیj شامل ہیں ۔ حکیم صاحب شعبہ تعلیم سے بھی وابستہ ہیں ۔ ۲۱؍ اپریل ۲۰۱۵ء کو سرکاری سکول میں معلم عربی مقرر ہوئے۔ تاحال بفضل اللہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ ۶؍ دسمبر ۲۰۱۵ء سے جامع مسجد بلال اہلِ حدیث ۴۳۔ گ، ب کو ہالی تحصیل سمندری میں دینی اور تبلیغی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں ۔وقت کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے انھوں نے قلم و قرطاس کے میدان میں بھی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جماعتی اخبارات اور جرائد میں آپ کے شخصیات پر اور دیگر طبی اور دینی موضوعات پر شستہ مضامین دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں ۔ ہر عنوان عمل و کردار اور افکارو عقائد کا مرقع ہوتا ہے، جو پڑھنے والے کے قلب و روح کو منور کر دیتا ہے۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘، ’’اہلِ حدیث‘‘، پندرہ روزہ ’’صحیفۂ اہلِ حدیث‘‘ اور ماہنامہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ میں آپ کے کافی مقالات شائع ہو چکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ تحریر جاری ہے۔ آپ کے مضامین و مقالات کے متعدد مجموعہ جات تیار ہیں ۔ فی الحال آپ کی طب کے موضوع پر دو کتابیں : ’’بیاض محمدی مع علاج الامراض‘‘ اور ’’ڈینگی بخار‘‘ شائع ہو چکی ہیں ۔ مولانا حکیم مدثر محمد خان حفظہ اللہ دینی اور طبی صحافت کے اُفق پر آفتاب کی طرح جگمگا رہے ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قلمی صلاحیتوں میں اضافہ فرمائے، بلکہ ان کے لیے یہ راہیں مزید کشادہ فرما دے ۔آمین 35۔مولانا عطاء اللہ حیدر سدھارتھ نگر(انڈیا) ہمسایہ ملک ہندوستان میں اہلِ دل اہلِ نظر کی بڑی بڑی بستیاں آباد ہیں ۔ سدھارتھ نگر وہاں کا ایک مشہور علاقہ ہے۔ مولانا عطاء اللہ صاحب حفظہ اللہ وہیں علم و عمل کا چراغ روشن کیے بیٹھے ہیں ۔ موصوف علومِ اسلامیہ کے فاضل اور شعر و ادب کے شناور نامور ادیب عالمِ دین ہیں ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ پر انھوں نے جو نظم اور تاثراتی مضمون لکھ کر بھیجا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بلند پایہ ادیب کے ساتھ محقق و نقاد بھی ہیں ۔ بے شبہہ اچھی شاعری بھی نیکی کا ذریعہ ہے۔ یہ بچھڑے ہوئے لفظوں کو جوڑتی ہے، مگر شاعری نیکی کا ذریعہ تب بنتی ہے، جب شاعر خود صاحبِ نسبت ہو۔ مقامِ شکرہے کہ مولانا عطاء اللہ صاحب اہلِ حدیث مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کی صحیح علمی نسبت صرف کتاب و سنت ہی سے ہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں فسق و فجور کا نہیں ، بلکہ خالقِ کائنات کے کمزور بندوں کو اس کے دین کے احیا کے ضمن میں ’’اعترافِ خدمت‘‘ کا عملی رنگ پایا جاتا ہے۔ میں مولانا موصوف کے کام اور شخصیت سے زیادہ آگاہ نہیں ، لیکن ہندوستان اور پاکستان کے بعض رسائل و جرائد میں ان کی جو نظمیں اور غزلیں میرے مطالعے سے گزری ہیں ، اس سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ موصوف محترم کا کلام عصری
Flag Counter