Maktaba Wahhabi

455 - 924
حق کو اُجاگر کرنے اور امورِ خیر کی ترویج و تنفیذ کے لیے ہر آن ساعی رہنا، مسلمان کے فرائض میں شامل ہے۔ باطنی طاقت خرچ کر دینے کے معنی ہیں اپنے آپ کو ہرقسم کے شیطانی وساوس اور اوہام سے محفوظ رکھنا، ذہن و فکر میں برائی اور معصیت کی کوئی بھی چھوٹی بڑی آلایش داخل نہ ہونے دینا، ابلیس کے مکر و فریب کو سمجھنا اور اس سے بچنا، نفس کی حیلہ جوئیوں سے مامون رہنے کی ہر ممکن سعی کرنا۔ جہاد کے مفہوم و مطلب کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مرضیاتِ الٰہی کے حصول کے لیے راہِ خدا میں آگے بڑھنے کے لیے باطل طاقتوں کو سرنگوں کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طورپر جو کوششیں کی جائیں ، وہ جہاد کہلاتی ہیں اور جو افراد اور جماعتیں اس میدان میں مصروفِ کار ہیں ، وہ مجاہد ہیں ۔ اس سلسلے میں جن کی جائیدادیں ضبط ہوئیں ، جنھوں نے قیدیں کاٹیں ، جو مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا رہے، جنھیں گھر بار چھوڑنا اور ترک کرنا پڑا، جنھیں ملک و قوم اور وطن و ملت کو آزاد کرانے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے جرم میں پھانسیوں پر لٹکایا گیا اور قید و بند کی سزائیں دی گئیں ، ان کا شمار یقینا مجاہدین میں ہوگا اور حضرت سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل دہلوی رحہما اللہ کی قیادت میں جو جماعت مجاہدین بنائی گئی تھی، اس کے ارکان کو سزا و عقوبت کے ان تمام مراحل سے گزرنا پڑا تھا اور وہ راہِ خدا کے سچے اور پکے مجاہد تھے، جنھیں کوئی دنیوی لالچ نہ تھا اور جنھیں اپنے اعزہ و اقارب اور متعلقین و احباب سے صرف اس لیے سیکڑوں میل دور بھیج دیا گیا تھا کہ وہ غیر مسلم طاقت سے اپنے ملک کی گلو خلاصی کے خواہاں تھے۔ وہ مخلص ترین مسلمان تھے اور اللہ اور اس کے رسول کے دل و جان سے فرماں بردار۔ غلط فہمی کا ازالہ: جب لوگ کسی کے متعلق تعصبات کی راہ اختیار کرلیتے ہیں تو وہ اس کے صرف کردار و ثقافت ہی کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے، اس کے الفاظ کو بھی متضاد معنوں میں استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان الفاظ میں ایک لفظ ’’جہاد‘‘ ہے۔ جہاں تک اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے اشتقاق و استعمال کا تعلق ہے، نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی ذم یا قباحت کا پہلو نہیں پایا جاتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعلیٰ درجے کے اخلاق و روحانیت سے تعبیر ہے اور اللہ کے احکام سے وابستگی و علائق کی نہایت ارتقائی کیفیت سے عبارت! لیکن جب مسلمانوں کی فتوحات کا دائرہ پھیلنے لگا اور صدائے حق دور دراز کے ملکوں میں پہنچی اور وہ اسلام کے جھنڈے تلے آئے تو غیر مسلموں بالخصوص یورپ کے پروپیگنڈا باز حلقوں نے لفظ ’’جہاد‘‘ کا مذاق اڑانے اور اسے بھیانک شکل میں پیش کرنے کی مہم شروع کر دی۔ انھوں نے اس طرح اس کی تصویر کشی کی کہ اس کے معنی بالکل بدل دیے اور لوگوں کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ جہاد کے معنی دوسرے پر بلا وجہ چڑھ دوڑ نے، ان پر خوامخواہ تسلط جمالینے اور لوٹ مار کرنے کے ہیں ۔ جو غیر مسلم سامنے آیا، اسے قتل کر دیا اور اس کے مال و دولت کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا، یہ جہاد ہے۔ اس سراسر غلط اور لغو تصور کو یہاں تک آگے بڑھایا گیا کہ جب مسلمان یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ نظریۂ جہاد
Flag Counter