Maktaba Wahhabi

585 - 924
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم مکرمی و محترمی مولانا محمد خان صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ! والا نامہ مکتوبہ ۲۲؍ اپریل ۲۰۰۳ء ملا۔ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ شگر گزار ہوں ، آپ نے یاد فرمایا۔ میں فیصل آباد گیا تھا۔ آپ کے مرسلہ قرآنِ مجید کا ایک نسخہ مولانا عبدالقادر ندوی کی اور ایک جناب علی ارشد کی خدمت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ کتاب ’’برصغیر میں علمِ فقہ‘ ‘ کا میرے پاس ایک ہی نسخہ تھا۔ وہ اتنا میلا کچیلا سا ہو گیا ہے کہ اس کی فوٹو واضح نہیں ہوسکتی۔ میں اسے کمپوز کرا رہا ہوں ۔ کمپوزنگ کے بعد اس کی پروف خو انی ہوگی۔ پھر ان شاء اللہ اس کی فوٹو کا پی پیشِ خدمت کر دی جائے گی۔ کوشش کروں گا کہ یہ مر حلہ جلد طے ہو جائے۔ ہندوستان میں شائع شدہ حدیث کے متعلق مقالات بہ عنوان: ’’علوم الحدیث، مطالعہ و تعارف‘‘ کے متعلق مَیں نے خط لکھا ہے کہ اس کی چند کاپیاں ارسال کی جائیں ۔ وہ کتاب آئی تو آپ اس کے سب سے زیادہ حق دار ہوں گے۔ آپ نے مجھ پر بہت احسان کیا ہے اور اہلِ علم سے رابطہ کرکے مجھے قرآنِ مجید کے سندھی تراجم سے مطلع فرمایا ہے۔ مجھے یہ بہت بڑا احسان ہمیشہ یاد رہے گا اور ان شاء اللہ آپ سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رکھوں گا۔ ۲۱، ۲۲؍ اپر یل کو اسلام آباد میں ’’برصغیر میں مطالعہ حدیث‘‘ کے موضوع پر جو سیمینار ہوا، اس میں بہت سے سندھی اہلِ علم تشر یف لائے تھے۔ وہ نہایت احترام سے پیش آئے۔ ان کے میل جول اور اسلوبِ گفتگو سے مَیں بہت متاثر ہوا۔ بڑے پیارے اور مخلص لو گ ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ انھیں خوش رکھے۔ آمین دوستوں سے سلام کہیے۔ اُمید کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ اخلاص کیش محمد اسحاق بھٹی ۱۱؍ مئی ۲۰۰۳ء 21۔راقم السطور حمید اﷲ خان عزیز(احمد پور شرقیہ)کے نام: مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے خط کے ضمن میں میں اپنا تعارف کہاں سے شروع کروں ۔۔۔ مولانا ایک جلیل القدر محقق عالمِ دین، نامور ادیب و مورخ اور میں ان کا ایک ادنیٰ سا خادم۔ ان سے اپنے نیازمندانہ اور تلمیذانہ تعلقات پر نظر ڈالتا ہوں تو یاد پڑتا ہے کہ اپریل ۲۰۰۲ء میں ماہنامہ مجلہ ’’تفہیم الاسلام‘‘ کے اجرا کے چند ہی ماہ بعد ان سے نسبتِ تلمذ جڑ گئی تھی، جو ان کی وفات ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء تک جاری رہی۔ اس عرصے میں ان
Flag Counter