Maktaba Wahhabi

577 - 924
الفاظ میں کی ہے: ’’لاہور میں ایک نوجوان ثناء اللہ ایک بڑے سینما کے مالک اور مشہور فلم ساز ہیں ، ان کے والد کلکتہ میں بیوپاری تھے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ اپنی ضرورتوں کے لیے ان سے بھی روپیہ منگواتے کبھی سو کبھی دو۔ لیکن چیک ساتھ بھجوا دیتے تھے۔ ان صاحب نے نیشنل بنک کا ایک چیک کیش ہی نہ کرایا، وہ آٹوگراف کے طور پر رکھ لیا، اس پر نصف صدی گزر چکی ہے، ان کے خاندان کے پاس محفوظ ہے۔‘‘ ’’چوہدری ثناء اللہ‘‘ اور ’’نوجوان ثناء اللہ‘‘ کے الفاظ سے ’’ثنائی سٹوڈیوز‘‘ کو حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ یا ان کی اولاد کے ساتھ بریکٹ کرنا ابلیسانہ حرکت نہیں تو اور کیا ہے۔(سعید) 12۔مولانا حافظ فاروق الرحمان یزدانی(فیصل آباد)کے نام: مولانا یزدانی صاحب، حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے بہت گرویدہ ہیں ۔ آپ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں مسندِ تدریس پر فائز ہیں ، انھوں نے مولانا کو خط کتابت کے لیے لیٹرپیڈ اور وزیٹنگ کارڈ چھپوا کر بطور تحفہ بھیجے تو اس پر مولانا نے انھیں یہ خط لکھا، جس میں ان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ دیکھئے یہ خط: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم عزیز القدر حافظ فاروق الرحمن یزدانی صاحب! حفظکم اللّٰہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ! آپ کی طرف سے ارسال کردہ تحائف(لیٹرپیڈ اور کارڈ)بذریعہ مولانا عبدالرحمن اور راشد محمود صاحب ۳۰؍ اپریل کو مل گئے۔ جزاکم اﷲ خیراً۔ دونوں چیزیں نہایت شان دار اور خوبصورت ہیں ۔ اور میری ضرورت سے بہت زیادہ۔ اس پر میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں ۔ آپ میرے لیے بہت تکلیف اُٹھاتے ہیں ۔ کوئی نہ کوئی چیز آپ مجھے عنایت کرتے رہتے ہیں ۔ بعض اوقات آپ کے اس دستِ سخا کی وجہ سے مجھے شرمندگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ آپ نے مجھے ’’مہرِ نبوت‘‘ بھی بھیج دی۔ یہ ایک اور کرم فرمایا۔ وہ دونوں عزیز(عبدالرحمن اور راشد محمود)مجھے کوٹ عبدالمالک حاضری کی دعوت دے گئے ہیں ، جو ان کے ازحد اخلاص کی وجہ سے میں نے قبول کر لی ہے، ان سے گفتگو کرتے ہوئے لطیفہ یہ ہوا کہ میرے منہ سے کوٹ عبدالمالک کے بجائے بار بار کوٹ لکھپت نکل جاتا تھا۔ وہ میری تصحیح کرتے اور کوٹ عبدالمالک کہتے۔ میں پھر وہی کو ٹ لکھپت کہنے لگتا۔ بہرحال مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ انھیں مجھے مل کر خوشی ہوئی یا نہیں ہوئی، یہ وہ جانیں ۔ میں صرف اپنے بارے میں بات کرنے کا ذمے دار ہوں ۔ ایک اور تکلیف دینا چاہتا ہوں ۔ اگر آپ کے کتب خانے میں محمد شفیع صابر کی تصنیف ’’شخصیاتِ سرحد‘‘ اور ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن کی ’’مشاہیرِ سرحد‘‘ ہوں تو ان میں قا ضی طلا محمد پشاوری کے حالات ضرور ہوں گے۔ مجھے ان کے
Flag Counter