Maktaba Wahhabi

54 - 924
متاعِ عزیز تحریر: جناب مولانامحمد یوسف انور۔ فیصل آباد ہمارے جگری دوست اور مسلکِ اہلِ حدیث کی متاعِ عزیز مولانا محمد اسحاق بھٹی ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کی صبح قریباً ۹۰ برس کی عمر میں ایک دو روز علالت کے بعد قضائے الٰہی سے انتقال کر گئے۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔ ۱۴؍ دسمبر ۲۰۱۵ء سوموار کی شب ان سے فون پر بات ہوئی۔ سردی کی شدت کی وجہ سے ان کی طبیعت اور خیریت دریافت کی تو فرمانے لگے کہ مولانا عبداللہ گورداسپوری مرحوم آج کل کی سردیوں میں کہا کرتے تھے کہ بچے اور بوڑھے اس موسم میں رضائی کا مال ہوتے ہیں ۔ ہم دونوں نے قہقہے لگائے۔ ان کی ہشاش بشاش گفتگو اور معمول کے مطابق لطائف بھری باتوں سے مجھے حوصلہ ہوا کہ بھٹی صاحب نے ماشاء اللہ اپنے اوپر بڑھاپا غالب نہیں آنے دیا، مگر وہ ’’گزر گئی گزران‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’میری عمر کا یہ آخری دور ہے۔ بچپن گیا، جوانی گئی، کہولت کا دور بیت گیا، اب بڑھاپا اپنا سفر تیزی سے طے کر رہا ہے۔ یہ بھی ختم ہونے والا ہے، جب پہلے دور نہ رہے جو اس سے کہیں مضبوط تھے تو یہ کمزور اور لڑکھڑاتا دور کب تک رہے گا؟‘‘ فون پر پندرہ بیس منٹ اُن سے گپ شپ رہی، مَیں دو تین ہفتوں بعد اکثر انھیں فون کر لیتا تھا، کبھی وہ یاد فرما لیتے تھے اور بعض اوقات ہمارے مشترکہ عزیز دوست رمضان یوسف سلفی کی معرفت دعا و سلام ہو جایا کرتی تھی۔ بھٹی صاحب مجھے کہنے لگے: ’’اہلِ حدیث‘‘ کے ایک پچھلے شمارے میں آپ کا مضمون ’’غزنوی چشمہ فیض‘‘ پڑھ کر ارادہ کر لیا ہے کہ جس طرح روپڑی خاندان پر کتاب لکھی ہے، اسی طرح ’’غزنوی خاندان‘‘ پر بھی مستقل کتاب لکھوں گا۔ میرے پاس اس موضوع پر کافی مواد موجود ہے، لیکن ’’وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہ‘‘ بھٹی صاحب نے مزید بتایا کہ ’’چمنستانِ حدیث‘‘ میں جن موجودین علما کے متعلق نہیں لکھ سکا، ان کے بارے میں ’’بوستانِ حدیث‘‘ میں لکھ چکا ہوں ، جس کا مسودہ تیار ہے۔ اُن کی اس بندۂ عاجز کے ساتھ محبت اور دیرینہ گہرا تعلق تھا کہ ’’چمنستانِ حدیث‘‘ میں مستقل باب کی صورت میں میرا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ ڈھائی تین ماہ قبل جب انھیں جامعہ سلفیہ میں استقبالیہ دیا گیا اور ان کی خدماتِ جلیلہ پر ایوارڈ پیش کیا گیا تو وہ
Flag Counter