Maktaba Wahhabi

473 - 924
صورتِ حال کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ جن علما نے مولانا عبدالوہاب دہلوی رحمہ اللہ سے حصولِ فیض کیا، ان کا سلسلۂ تعلم لکھوی علما تک پہنچا۔ ........سوہدرہ(ضلع گوجرانوالہ)کا علوی خاندان علمائے دین کا مشہور خاندان ہے، جس کے اہلِ علم کا تذکرہ ان شاء اللہ کیا جائے گا۔ اس خاندان کے معروف عالم مولانا غلام نبی ربانی رحمہ اللہ تھے، انھوں نے کتبِ حدیث حافظ محمد لکھوی سے پڑھیں اور سند لی۔ مولانا غلام نبی ربانی سے جن حضرات نے تحصیلِ علم کی، ان کا سلسلۂ تلمذ حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ تک پہنچا۔ ........حضرت حافظ عبداللہ روپڑی طالب علمی کے ابتدائی دور میں اپنے برادرِ مکرم رکن الدین کے ساتھ لکھو کے گئے اور مولانا عبدالقادر لکھوی رحمہ اللہ سے بعض فنون کی کتابیں پڑھیں ، لہٰذا حافظ صاحب روپڑی کے شاگردوں کا تعلق تعلیم بھی اُس دورکے لکھوی علماء سے قائم ہوا۔ ........مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی رحمہ اللہ طلبِ علم کے لیے اپنے وطن راجستھان سے لکھو کے پہنچے اور لکھوی علما سے فیض یاب ہوئے، اس بنا پر ان کے تلامذہ کرام کا شمار بھی ان کی وساطت سے لکھوی علما کے فیض یافتوں میں ہوا۔ ........ماضی قریب کے بے شمار حضرات براہِ راست لکھوی علما کی بارگاہِ فضیلت میں دوزانو ہوکر بیٹھے اور ان سے اکتسابِ علم کیا، جن میں سید مولا بخش کوموی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا عبدالرحیم شہید بھوجیانی، حافظ محمد بھٹوی، مولانا محمد یوسف راجووالوی، مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی، مولانا حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی، مولانا حافظ عبدالرشید گوہڑوی، مولانا حافظ عبدالغفور جہلمی رحمہم اللہ اور دیگر بہت سے حضرات کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔ ان بزرگانِ کرام سے موجودہ دور کے لاتعداد اہلِ علم کو استفاد ے کے مواقع میسرآئے۔ اس لحاظ سے وہ لکھوی علما کے دائرہ شاگردی میں گردانے گئے۔ یہ سب حضرات ہمارے لیے بے حد قابلِ احترام ہیں ۔ اس فقیر کو اللہ تعالیٰ نے توفیق مرحمت فرمائی کہ یہ ان سب اساتذہ کرام کے حالات اپنی مختلف کتابوں میں لکھ چکا ہے۔ اب آئیے موجودہ دور کے لکھوی اہلِ علم کی طرف! ۱۹۴۷ء میں لکھوی خاندان کے لوگ اوکاڑہ اور اُس کے قرب وجوار میں آباد ہوئے اور ان کا دارالعلوم جس کا نام ’’جامعہ محمدیہ‘‘ ہے، اوکاڑہ میں منتقل ہوا۔ لکھو کے میں بھی اس کے ناظم مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ تھے، یہاں بھی اس کی زمامِ نظامت انہی کے سپرد رہی۔ ۱۹۴۷ء سے لے کر اب تک جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کا تدریسی نظام بہترین انداز میں چل رہا ہے، جب کہ اس کی دوشاخیں جامعہ محمدیہ نورشاہ ضلع ساہیوال اور مدرسہ مرکز الاسلام(الٰہ آباد، قلعہ تارا سنگھ)تحصیل دیپال پور میں بہ طریق احسن خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ ۲۲سال کی اس طویل مدت میں پاکستان کے متعدد جید علمائے کرام جامعہ محمدیہ کی مسندِ تدریس پر متمکن ہوئے۔ ان
Flag Counter