Maktaba Wahhabi

270 - 924
تُسی کِتھّے او۔۔۔؟ تحریر: جناب مولانا فاروق الرحمن یزدانی۔ فیصل آباد اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور نظام ہے کہ ہر انسان ایک وقت مقرر کے لیے اس دنیا میں آتا ہے اور اپنی دنیاوی زندگی کے دن گزار کر پھر اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹ جاتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنی حیات ِمستعار کے یہ ایام اس انداز سے گزار جاتے ہیں کہ موت کے وقت انھیں پیغام دیا جاتا ہے: ﴿ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ﴾ [حم السجدۃ: ۳۰] اور جب وہ موت کی گھاٹی عبور کر جاتے ہیں تو انھیں آواز دی جاتی ہے: ﴿ يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ * ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً *فَادْخُلِي فِي عِبَادِي*وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴾ [الفجر: ۲۷۔ ۳۰] یہ سعید روحیں آخرت میں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل و کرم سے لطف اندوز ہوتی ہی ہیں ، دنیا میں بھی اچھے الفاظ میں ان کے تذکرے ہوتے ہیں اور ان کے کارناموں سے ان کے مرنے کے بعد بھی ایک جہان مستفید ہوتا ہے، ایسے ہی لوگوں کے بارے اللہ کریم نے ارشاد فرمایا: ﴿فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ہم اللہ تعالیٰ کے عاجز اور گنہگار بندے اللہ تعالیٰ سے یہ قوی امید رکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہمارے ممدوح محسن اہلِ حدیث، ذہبیِ دوراں ، مورخِ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی ۔رحمہ اﷲ تعالی رحمۃ واسعۃ۔ کا شمار بھی انہی خوش بخت لوگوں میں فرمائیں گے۔ إن شاء اﷲ۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ رب العزت کے ودیعت کردہ تقریباً ۹۱ سال اس انداز سے گزار کر گئے ہیں کہ ان کو جاننے والا سارا جہان ان کی نیکی، تقویٰ و پرہیز گاری، دیانت داری، عاجزی و انکساری، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، قرآن و حدیث کی تفسیری و تشریحی اور دفاعی خدمات، اولیاء اللہ سے محبت، حاملینِ کتاب و سنت کی خدمت، سلف صالحین صحابہ کرام] و محدثین کی خوشہ چینی، ازواجِ مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے عقیدت، تکبر، غرور اور نخوت سے پاک اور سراپا شکر و سپاس سے بھرپور زندگی گزارنے کی گواہی دیتا ہے۔ ناطق وحی پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا:((أنتم شہداء اللّٰہ علی الأرض))(لوگو! تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو، جیسی تم گواہی دو گے اللہ تعالیٰ مرنے والے کے ساتھ اس طرح کا معاملہ فرمائیں گے۔)
Flag Counter