Maktaba Wahhabi

64 - 924
صاحبِ طرز ادیب کی تحریر پڑھ رہے ہوں ۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے بہت لوگوں کو شناسائی اور محبت کا دعوی ہے اور یہ دعوی غلط بھی نہیں ، ان کا حسنِ سلوک ہی سب کے ساتھ اس قدر محبت و شفقت کا ہوتا تھا کہ انسان ان کی شخصیت کے سحر سے مسحور ہو کر اپنی خوبیِ قسمت پر ناز کرنے لگتا تھا۔ بزرگوں کا ذکر ہوتا تو نہایت ادب و احترام سے نام لیتے اور چھوٹوں کی اس قدر حوصلہ افزائی فرماتے کہ ان میں مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوتا۔ مجھے اسلام آباد منتقل ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا، میرا قیام محبِ مکرم جناب چودھری ضیاء اللہ ضیاء کے دولت کدے پر تھا۔ ضیاء صاحب اسلام آباد کے بہت ہی مخلص احباب میں سے ہیں ، سراپا اخلاص، مرنجان مرنج اور صاحبِ دل۔ مَیں ان کی ضیافتوں اور ظرافتوں سے ایک سال تک مستفید ہوتا رہا، بہر حال ضیاء صاحب کے مکان پر ایک شام مجھے پیغام ملا کہ حضرت مولانا محمد بشیر سیالکوٹی حفظہ اللہ کی رہایش گاہ پر مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تشریف فرما ہیں اور وہ آپ کو یاد کر رہے ہیں ۔ عربی زبان و ادب کے مشہور فاضل، بہت سی کتابوں کے مشہور مولف و مصنف، بابائے عربی بھی میرے دیرینہ کرم فرماؤں میں سے ہیں ، انھوں نے بھی مجھے اسلام آباد قیام کے دوران میں بے پناہ محبتوں اور کرم نوازیوں سے آرام بہم پہنچایا۔ ہمارے بابائے عربی کی طبیعت آج کل ناساز ہے، اللہ تعالیٰ انھیں صحت وعافیت اور ایمان و سلامتی کے ساتھ دراز اور بابرکت عمر عطا فرمائے، عربی زبان و ادب کی تعلیم اور اشاعت کے لیے جو وہ مساعیِ جمیلہ سر انجام دے رہے ہیں ، ان کا کوئی سہیم و شریک نہیں ، اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تشریف آوری اور یاد فرمائی کا سن کر بے پناہ دلی مسرت حاصل ہوئی، میں بس پیغام لانے والے کے ہمراہ کشاں کشاں چل دیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بے پناہ محبت، شفقت اور اپنائیت کا مظاہرہ فرمایا۔ مَیں اپنے دونوں بزرگوں کی گفتگو سے مستفید ہوتا رہا اور مداخلت کی کم کم ہی ’’جراَت‘‘ کی۔ یہ مجلس کافی دیر تک جاری رہی، بہت سے مسائل پر تبادلہ خیالات ہوا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی گفتگو میں بڑی روانی، بڑی آمد اور بہت سلاست تھی اورہر موقع و محل کی مناسبت سے علمی لطائف سناتے، جو سننے والے کو بور نہیں ہونے دیتے تھے۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ خود ہی نان سٹاپ بولتے جائیں اور دوسرے کو موقع ہی نہ دیں ، دوسروں کو بھی موقع دیتے اور ان کی گفتگو بھی پوری توجہ سے سنتے۔ اس مجلس میں یہ فقیر کچھ عرض کر رہا تھا کہ ایک صاحب نے درمیان ہی میں بات کاٹنے کی کوشش کی، افسوس کہ ان کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا، بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے نہایت شائستگی اور ملامت کے ساتھ انھیں توجہ دلائی کہ یہ بات آدابِ مجلس کے خلاف ہے کہ ایک آدمی بات کر رہا ہو اور ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی بات شروع کر دی جائے، اور اس فقیر کے بارے میں انھوں نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے،
Flag Counter