Maktaba Wahhabi

109 - 924
برصغیر(پاک و ہند)کی چند نامور شخصیات کو مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے کیسا پایا؟ تحریر: جناب مولانا عبدالرشید عراقی( سوہدرہ، ضلع گوجرانوالہ) پیشِ گفتار: مورخِ اہلِ حدیث بلند پایہ صحافی اور اسکالر، صاحبِ تصانیف کثیرہ، نامور دانشور، مفکر، مدیر، نقاد، ادیب، مقرر، مبلغ، اور صاحبِ فہم و بصیرت اور صاحبِ تحقیق عالمِ دین، حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ(م: ۱۹۸۷ء)، مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ(م: ۱۹۶۳ء)کے تربیت یافتہ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ(م: ۱۹۶۸ء)، حضرت العّلام حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ(م: ۱۹۸۵ء)کے تلمیذ اور متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ(م، ۱۹۸۷ء)کے رفیق کار مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اس دنیائے فانی کی ۹۱ بہاریں دیکھنے کے بعد ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء، بروز منگل کو راہی بعالمِ آخرت ہوگئے۔ إنا ﷲ و إنا إلیہ راجعون۔۔۔ إن للّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطٰی وکل شییٔ عندہ بأجل مسمی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ عمدہ مقرر و مصنف، دور اندیش مشیر اور حلیم الطبع انسان تھے۔ ملّی مسائل اور جماعتی امور میں بھرپور دلچسپی لیتے تھے۔ ان کی وفات سے ملتِ اسلامیہ اور جماعت اہلِ حدیث کا ایک عظیم ستون گر گیا اور جماعت اہلِ حدیث ایک عظیم مذہبی راہنما، ایک عظیم مفکر، اور ایک عظیم علمی شخصیت سے محروم ہوگئی۔ اخلاق، شرافت، شائستگی و تہذیب، بلند حوصلگی، وسعتِ قلب و فکر، وضعداری و پاسداری کی ایسی پاکیزہ خصوصیات آپ میں پائی جاتی تھیں ، جن کی وجہ سے آپ نہ صرف تمام فقہی مسالک کے اکابر، بلکہ عالمِ اسلام میں نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ بھٹی رحمہ اللہ صاحب تحریر و تقریر کے میدان کے کامیاب شہسوار تھے۔ زبان و قلم میں بلا کی شگفتگی و دلدوزی تھی۔ آپ کی تقریروں میں علم و روحانیت، فکر و بصیرت اور تحقیق و کاوش کے جوہروں کے ساتھ ادب کی چاشنی اور اسلوب کی دل آویزیاں چمکتی نظر آتی ہیں ۔ اور یہ حقیقت ہے اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجایش نہیں کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی ذاتِ گرامی قدیم روایاتِ صالحہ کی قیمتی یادگار تھی۔ آپ کی شخصیت اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ صفت ہے، جس کی مثال اس زمانے میں ناپید ہے۔ آپ عالم باعمل تھے اور بے مثال اہلِ قلم بھی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی دینی فہم بھی عطا کی تھی اور دنیاوی شعور بھی، آپ پاکیزہ مجسمۂ اخلاق تھے۔
Flag Counter