Maktaba Wahhabi

358 - 924
مورخِ اہلِ حدیث رحمہ اللہ کا شوقِ مطالعہ تحریر: جناب لیاقت علی باجوہ۔ سیالکوٹ مطالعۂ کتب کے شوق و شغف سے انسان علم و فن کی بہت سی منازل طے کرتا ہے۔ علم ایک سمندر ہے اور سمندر سے لعل و گوہر نکالنا مشکل نہیں ہے، لیکن اس کے لیے کتاب سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔ کتاب بہترین دوست اور راہنما ہے۔ اس سے تعلق قائم ہو جائے تو پھر علم کے سارے راستے آسان ہو جاتے ہیں ۔ امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں حسن بن احمد الہمدانی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ ان کے گرد کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور وہ ان کے مطالعے میں مشغول ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ میری ایسے کام کی طرف راہنمائی فرما، جو دنیا میں میری بہترین مشغولیت کا باعث ہو تو اللہ تعالیٰ نے مجھ میں مطالعہ کا ذوق پیدا فرما دیا۔(طبقات الحنابلۃ: ۱/ ۳۱۹) اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حصولِ علم میں معاون کون سی چیز زیادہ اہمیت کی حامل ہے؟ انھوں نے جوا ب دیا: اللہ تعالیٰ جس شخص کو علم سے بے بہرہ رکھنا چاہتا ہو، اس سے کتابوں کا شوق و رغبت ختم کر دیتا ہے۔(مجموعۃ الرسائل الکبری: ۱/ ۲۳۹) مورخِ اہلِ حدیث، ذہبی دوراں ، شہسوارِ قلم مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بچپن ہی سے رسائل و جرائد اور مطالعہ کتب کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور بچپن میں میرے مطالعے کی رفتار اوسطاً ۲۰۰؍ صفحات روزانہ تھی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے محلے میں ایک باغ تھا، میں اکثر صبح کو اس باغ میں چلا جاتا اور شام تک وہاں پڑھتا رہتا۔ میری دلچسپی کا اصل موضوع اسلامی تاریخ تھا۔ وہ بچھڑ گئے ہم سے اک خیال بن کے وہ جئے کچھ سال ہی سہی جئے تو مثال بن کے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کہتے تھے کہ میرے پاس بہت سے رسائل آتے تھے اور میں تمام رسالے ’’الف‘‘ سے لے کر ’’ے‘‘ تک پڑھنے کی کوشش کرتا۔ میں بچپن ہی سے رسائل و جرائد میں سے اپنے فہم کے مطابق حالاتِ حاضرہ اور ملکی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرتا اور کتابوں کے مطالعے سے دینی مسائل سے آگاہی اور تاریخی واقعات کو ذہن نشین کرنا میری دلچسپی کا محور تھا۔ اب نہ دنیا میں آئیں گے یہ لوگ کہیں ڈھونڈے نہ پائیں گے یہ لوگ
Flag Counter