Maktaba Wahhabi

248 - 924
آہ! مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی گزر گئے (چند یادیں ، چند آثار) تحریر: جناب عرفان جعفر خان۔ لاہور مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نامور ادیب اور مورخ تھے۔ قدیم علمائے کرام کی یادداشتوں کا بیش بہا خزانہ ان کے سینے میں محفوظ تھا۔ خوش مزاج، ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ ۹۱ برس کی عمر میں بھی وہ کسی کے محتاج نہیں ہوئے۔ ایک دن علالت اور پھر اچانک ناگہانی موت۔ ’’ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘(القرآن) ان کے قلم نے کبھی قرار نہیں پایا، آخری وقت تک تصنیفی کام جاری تھا۔جو بھی ان سے ایک بار ملا، متاثر ہوئے بغیر نہ رہا۔ وہ محفل کی جان تھے، ہر فرقے اور طبقے سے میل جول رکھتے۔ کسی کا بُرا نہ مناتے۔ مختلف شخصیتوں پر بھی لکھا، مثلاً: شیخ قمرالدین صاحب رحمہ اللہ پر لکھا تو ایسی خاکہ نگاری کی کہ ان کی شخصیت نکھر کر سامنے آگئی۔ کتاب کا نام ’’محفلِ دانشمنداں ‘‘ ہے،[1]جو نئے محقق اور تاریخ دان پیدا ہونا تو دور کی بات، نئی نسل اگر انہی کی علمی خدمات سے استفادہ کر لے تو بہت بڑی بات ہے۔ جانا سبھی کو ہے، لیکن اگر کوئی زندگی اور موت کی حقیقت جاننا چاہتا ہے تو ایک لمحے کے لیے سوچ لے کہ وہ کیا لے کر اور کیا چھوڑ کر جا رہا ہے؟ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کو اعزاز حاصل تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے منعقدہ ۲۵، ۲۶؍ اگست ۱۹۴۱ء کے تاسیسی اجلاس کے عینی شاہد تھے۔ وہ اگرچہ جماعت اسلامی میں باقاعدہ شامل نہیں ہوئے تھے، تاہم وہ تمام عمر جماعتِ اسلامی کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے رہے۔ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے میرا پہلا تعارف کتاب ’’تذکرۃ النبلاء في تراجم العلمائ‘‘ از مولانا عبدالرشید عراقی سے ہوا، جس میں لکھا کہ وہ جماعتِ اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شریک ہوئے۔ پھر میں مولانا مودودی رحمہ اللہ کے ذاتی معاون بشیر احمد بٹ رحمہ اللہ سے ان کی رہایش گاہ معلوم کر کے حاضر خدمت ہوا۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ چلتا رہا، جو ان کی وفات کے چند دن قبل تک جاری رہا۔ لیاقت بلوچ صاحب قیم جماعتِ اسلامی پاکستان سے اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا کہ آپ کی ان سے فون پر بات کروانی ہے تو بلوچ صاحب نے کہا
Flag Counter