Maktaba Wahhabi

240 - 924
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے تحریر: جناب مولانا عطاء اللہ عبداللہ سدھارتھ نگری(انڈیا) مکرمی! دنیا میں جو بھی آیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن موت کا تلخ جام نوش کرنا ہے اور دنیائے فانی کو الوداع کہہ کر دارِ بقا کے سفر پر نکلنا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی موت پورے عالمِ کو جھنجھوڑ دیتی ہے اور جن کی وفات امت کے حق میں حسرت آیات ثابت ہوتی ہے اور وہ ’’موت العالم موت العالم‘‘ کے صحیح اور سچے مصداق ہوتے ہیں ۔ انھیں عظیم المرتبت اور عدیم المثال شخصیتوں میں سے ممتاز عالمِ دین، مورخ اہلِ حدیث اور صاحبِ طرز ادیب مولانا محمد اسحاق بھٹی بھی ہیں ، جو ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز منگل راہی ملکِ بقا ہوئے، جن کے نام کے ساتھ اب ’’رحمہ اﷲ‘‘ لکھتے ہوئے انگلیوں میں لرزش اور قلم پر جنبش طاری ہو جاتی ہے، لیکن ہم وہی کہتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیمt کی وفات پر کہا تھا۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی وفات سے اہلِ علم خصوصاً جماعت اہلِ حدیث کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے، جس کا پر ہونا بظاہر ناممکن ہے۔ افسوس آج علم الرجال کی کم یابی کے اس دور میں قحط الرجال بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ۔ جس نے بھی آپ کی تحریروں کا مطالعہ کیا ہوگا، وہ دل سے آپ کا گرویدہ اور آپ کی علمی، ادبی اور قدآور شخصیت کا ضرور معترف نظر آئے گا۔ آپ نے اکیانوے سال کی مدتِ عمر میں تن تنہا کئی کتابوں کا انبار لگا دیا، جو بظاہر کسی تنظیم یا کئی شخصیتوں کا کارنامہ لگتا ہے، اسی بنا پر ہم بلاریب موصوف کو ’’وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے‘‘ اور ’’دبستانِ فکر و فن‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ تاریخ و سیرت جیسے دشوار اور محنت طلب موضوع پر بھی آپ نے علم و ادب کے موتی لٹائے اور فکر و فن کی گہرباری کی، جس شخصیت پر بھی قلم اٹھایا، سیر حاصل بحث کی۔ آپ نے جماعت اہلِ حدیث کے سُرخیل علما اور عظیم المرتبت ہستیوں کو گوشۂ گمنامی سے نکال کر انھیں ان کا صحیح مقام دلایا اور ان کی خدمات اور کارناموں کو دنیا کے سامنے اُجاگر کر کے انھیں شہرتِ عام اور بقائے دوام عطا کیا۔
Flag Counter