Maktaba Wahhabi

133 - 924
ماپے تینوں گھٹ رون گے۔۔۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ (۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء ۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء ) تحریر: جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفراللہ(سمندری، فیصل آباد) ۲۹؍ رمضان المبارک ۱۴۱۳ھ(۲۳؍ مارچ ۱۹۹۳ء)کا آخری روزہ تھا۔ بعد از ظہر کا وقت اور پیپلز کالونی فیصل آباد کا ڈی گراؤنڈ تھا۔ حضرت مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کے لیے روزے اور گرمی کے باوجود عقیدت مندوں کا جمِ غفیر تھا۔ حضرت مولانا محمد عبداللہ آف گوجرانوالہ(متوفی: ۲۸؍ اپریل ۲۰۰۱ء)۔ امیر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان نے حضرت چیمہ صاحب رحمہ اللہ کے بارے تعزیتی کلمات بڑے دکھی دل کے ساتھ ادا فرمائے: ماپے تینوں گھٹ رون گے بہتے رون گے دلاں دے جانی ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز منگل بعد از نماز عشا مرکزی مسجد اہلِ حدیث منصور پور المعروف ڈھیسیاں جڑانوالہ تھی۔ ایک اور اسحاق۔۔۔ حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کے لیے رات کی تاریکی اور سردی کے باوجود عقیدت مندوں کا جم غفیر تھا۔ پروفیسر حافظ عبدالستار حامد صاحب حضرت بھٹی صاحب بارے تعزیتی کلمات بڑے دکھی دل کے ساتھ ادا فرما رہے تھے: ماپے تینوں گھٹ رون گے بہتے رون گے دلاں دے جانی اور یہ حقیقت ہے کہ سیکڑوں نہیں ہزاروں دلی عقیدت و احترام والے اپنی آخری سانس تک انھیں ضرور یاد رکھیں گے۔ مرحوم ہر دو ’’اسحاق‘‘ نامی تھے۔دونوں اپنے اپنے میدان کے شہسوار تھے۔ ایک جماعتی سیاست کے شناور تھے تو دوسرے جماعتی تاریخ کے یاور تھے۔ مکرمی بھٹی صاحب کے جنازے پر ’’ماپے تینوں گھٹ رون گے۔۔۔۔‘‘ نے ہر دو بارے دل کے زخم تازہ کر دیے۔ اللھم اغفرلھما و ارحمھما وادخلھما في جنت الفردوس۔ جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ طویل عمری سے سرفرازہوئے اور اپنے والد محترم میاں عبدالمجید رحمہ اللہ(۱۸؍ ستمبر ۱۹۸۸ء )کی طرح نوے سال کی عمر پوری کی۔ ذہبی دوراں حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ الفاظ کی حد تک نہیں ، واقعی طور پر اپنی ذات میں انجمن سے آگے بڑھ کر ایک عہد کی تاریخ تھے اور خاص طور پر تاریخ اہلِ حدیث کے امین تھے۔ ماضی کے کسی گوشے کی بات ہو،
Flag Counter