Maktaba Wahhabi

613 - 924
سے ان کی بے حد شگفتہ، مزاحیہ اور پر اثر تحریریں شائع ہوئیں ۔ اُردو کے معروف ادیب و نقاد مظفر علی سید نے ان تمام کالموں کو چار ضخیم جلدوں میں مرتب کر کے شائع کر دیا ہے۔ خواجہ صاحب رحمہ اللہ نے ۸۰۔ ۱۹۷۹ء کے دوران ’’تخلیقی ادب‘‘ کے پُر اثر نام سے کتابی شکل میں ایک رسالہ نکالا، جسے پاک و ہند میں بہت سراہا گیا۔ انھوں نے مختلف اوقات میں جو کتابیں ایڈٹ کیں ، ان میں ’’تذکرہ خوش معرکہ زیبا‘‘(دو جلدیں : از سعادت خان)، ’’اقبال‘‘(از احمد دین)نہایت اہم ہیں ۔ انھوں نے ’’غالب اور صغیر بلگرامی‘‘ کے عنوان سے ایک اہم تحقیقی کتاب لکھی۔ اسی طرح ’’کلیاتِ یگانہ ‘‘کی ترتیب و اشاعت میں بھی یاد گار کردار ادا کیا۔ خواجہ صاحب کی لائبریری خود ایک مستقل مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں اور دس ہزار کے قریب رسائل و جرائد کے شمارہ جات ہیں ۔موصوف کو اپنے والد مرحوم کی طرح ڈائری لکھنے کا شوق تھا ۔انہوں نے اپنے والد خواجہ عبدالحی مرحوم کی ڈائری کو مرتب کر لیا تھا، لیکن مطبوعہ شکل میں اسے دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ ۲۱؍ فروری ۲۰۰۵ء کو ۶۹ برس کی عمر میں بزمِ اردو سے جدا ہو گئے۔ مؤرخِ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے ساتھ مکرم خواجہ صاحب مرحوم کی علمی و ادبی سطحی پر دیرینہ روابط تھے، جس کی تفصیل مشفق خواجہ مرحوم پر مولانا بھٹی صاحب کے تحریر کردہ مضمون سے لگایا جا سکتا ہے، جو اُن کی کتاب ’’محفلِ دانش منداں ‘‘ میں مطوع ہے۔ خط کتابت بھی رہتی تھی۔ خواجہ صاحب رحمہ اللہ کا ایک خط اس کتاب کے چوتھے باب میں آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ جو انھوں نے حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو ان کی کتاب ’’قصوری خاندان‘‘ کے وصول ہونے پر لکھا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دونوں دوستوں کی بال بال مغفرت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ آمین 13۔ڈاکٹر وزیر آغا(وفات: ۷؍ ستمبر ۲۰۱۰ء): ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ تاریخ اردو ادب کا بہت اہم اور تنقید کے میدان کا ایک بہت معتبر نام ہیں ۔ اردو تنقید و ادب کے ساتھ ان کی گہری وابستگی ہی دیگر ادیبوں سے انھیں ممتاز کرتی ہے۔ آپ علم و دانش کے بیک وقت کئی شعبوں میں مہارت رکھتے تھے۔ مثلاً: علم و ادب، تحقیق و تنقید، تاریخ و جغرافیہ، فلسفہ و منطق، طب، سائنس، ریاضی، نجوم و فلکیات، ادیانِ عالم اور سیاست وغیرہ۔ ایک طویل عرصے میں ڈاکٹر صاحب کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، جن میں چند یہ ہیں : اردو ادب میں طنز و مزاح، مسرت کی تلاش، خیال پارے، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، غالب اور ذوق تماشا، تصورات، عشق و فرد اقبال کی نظر میں ، چہک اُٹھی لفظوں کی چھاگل وغیرہ۔ انھوں نے مجلہ ’’اوراق‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے خرد افروزی کی جو شمع روشن کی تھی، وہ آج ایک مینارۂ نور کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آپ کے افکار بالخصوص انشائیے، افسانے، غزلیں ، نظمیں ، تنقیدی و تحقیقی مضامین ’’اوراق‘‘ کے علاوہ ’’فنون‘‘، ’’اخبار اردو‘‘، ’’قومی زبان‘‘ اور دیگر
Flag Counter