Maktaba Wahhabi

601 - 924
5۔احمد ندیم قاسمی رحمہ اللہ(وفات: ۲۰۰۶ء) عہدِ حاضر کے اردو ادب میں احمد ندیم قاسمی کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی منفرد ہے کہ وہ بیک وقت بلند پایہ شاعر، صاحبِ طرز افسانہ نگار، صاحبِ نظر نقاد اور شگفتہ کالم نگار تھے۔ اور یہ دوچار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔ جناب احمد ندیم قاسمی ۲۰؍ نومبر ۱۹۱۶ء کو انگہ تھل تحصیل خوشاب ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام احمد شاہ ہے۔ لیکن قلمی دنیا میں آپ احمد ندیم قاسمی معروف ہوئے۔ آپ کے والد گرامی پیر علی نبی صاحب ایک ادبی آدمی تھے، مگر تصوف سے زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ قاسمی صاحب نے پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور ۱۹۳۵ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ادب میں ترقی پسند تحریک آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہی تھی۔ قاسمی صاحب بھی اس تحریک کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور بہت جلد اس تحریک کے سرکردہ ادیبوں اور سرگرم کارکنوں میں شمار ہونے لگے۔ ان کی تصانیف کی تعداد ۳۴ ہے، جن میں ۱۵ ان کے افسانوی مجموعے ہیں ۔ ان میں ’’چوپال‘‘۔ ’’بگولے‘‘۔ ’’گرداب‘‘۔ ’’طلوع و غروب‘‘ ، ’’سیلاب‘‘۔ ’’گھر سے گھر تک‘‘۔ وغیرہ شامل ہیں ۔ تنقید میں بھی قاسمی صاحب نے اپنے قلم کا جادو جگایا اور ’’تہذیب و فن‘‘ اور ’’تعلیم اور ادب کے رشتے‘‘ جیسی معرکہ آرا کتب تحریر کیں ۔ ان کے علاوہ بھی تنقید پر مزید چھے کتب اور ہیں ۔ قاسمی صاحب شاعری کے سلسلے میں باقاعدہ کسی کے شاگرد نہیں ہوئے، البتہ اپنا کلام اخترشیرانی اور عبدالمجید سالک کو دکھاتے رہے اور شاعری میں بقول قاسمی صاحب: ’’شاعری میں سب سے پہلے علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان رحمہما اللہ کے اثرات قبول کیے، لیکن اس کے بعد مرزا غالب میرا آئیڈیل شاعر ہے۔‘‘ (بحوالہ: انٹرویو برائے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی(ادبی صفحہ)’’ادب و ثقافت‘‘۔ انٹرویو نگار: حسن وقار گل۔(اشاعت: ۴؍ جولائی ۱۹۸۰ء) ۱۹۴۰ء میں قاسمی صاحب کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’چوپال‘‘ اور ۱۹۴۱ء میں قطعات کا پہلا مجموعہ ’’دھڑکنیں ‘‘ شائع ہوا۔ ان کے افسانوں ، شاعری اور تنقید پر کم و بیش دو درجن مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور اہلِ نظر سے دادِ تحسین وصول کر چکے ہیں ۔ ان کی شاعری کا آغاز مولانا محمد علی جوہر رحمہ اللہ کی موت پر مرثیہ نما نظم ’’محمد علی جوہر رحمہ اللہ ‘‘سے ہوا، جو ۱۹۳۱ء میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور میں شائع ہوئی، جس سے خوش ہوکر ان کی والدہ نے انھیں ایک پیسہ بطور انعام دیا۔ قاسمی صاحب ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت انسان تھے۔ ایک طرف وہ شاعری میں بلند درجے کے حامل تھے تو دوسری جانب افسانہ نگاری میں ان کا شمار اس عہد کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ایک جانب وہ مزاحیہ اور سنجیدہ کالم نگاری میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں تو دوسری جانب تنقید میں ایک خاص نقطۂ نظر کے حامل اور ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ ایک اچھے منتظم بھی تھے اور بہت اچھے مدیر بھی۔ ان کی زیرِ ادارت اردو میں جو عہد ساز جریدے شائع ہوئے، ان میں ماہنامہ تہذیبِ نسواں ، پھول، ادب لطیف، سویرا، نقوش اور فنون کے علاوہ روزنامہ امروز
Flag Counter