Maktaba Wahhabi

292 - 924
دے رہے ہیں ، سن کر نہایت مسرت ہوئی۔ میں نے ان کا حلیہ بیان کیا تو کہا: بالکل وہی ہیں ، انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ از راہِ کرم اس فقیر کو بھولے نہیں ۔‘‘ پھر بھٹی صاحب رحمہ اللہ ان کی ملاقات کو جامعہ سلفیہ فیصل آباد حاضر ہوئے، مولانا ثناء اللہ صاحب رحمہ اللہ ایک چار پائی پر براحمان تھے۔ بقول بھٹی صاحب رحمہ اللہ: ’’میں نے ان کی پائنتی پر بیٹھ کر السلام علیکم کہا، ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہوئے عرض کیا: ’’آپ کا دیرینہ شاگرد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ۔‘‘ یہ الفاظ سن کر انھوں نے میری طرف گردن گھمائی اور عینک کے شیشوں کی اوٹ سے دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’اچھا آپ!‘‘ چند منٹ باتیں ہوئی اور میں چلا آیا، اس کے بعد اُن سے ملاقات نہیں ہو سکی، البتہ اشرف جاوید کی وساطت سے ان کی خیریت و عافیت کا علم ہوتا رہا، یہ شعر اُن کی شان میں : پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی (کاروانِ سلف، ص: ۵۲۴) پھر میں نے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے اُن کی وفات کا ذکر کیا تو بہت رنجیدہ ہوئے، دیر تک افسوس کرتے رہے، کہا: بہت نیک دل، صاحبِ علم، کامیاب مدرس اور خاموش طبع انسان تھے۔ ایک دفعہ مولانا ہوشیارپوری رحمہ اللہ نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تعریف میں فرمایا: ’’بہت زیادہ ذہین فطین، سبق کو اَخذ کرنے والا تیز اور معاملہ فہم طالبِ علم تھا۔‘‘ اور ساتھ یہ الفاظ بھی ارشاد فرمائے: ’’بانس کے سوئے کی طرح‘‘۔ عادات و خصائل: جناب محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ بہت اچھی عادات کے مالک تھے۔ (1)۔ ان کی عادت تھی ہر صبح ضرور قرآنِ مجید کی تلاوت با ترجمہ کرتے تھے، ان کو ہر دفعہ دیکھا، جب بھی ان کے ہاں ٹھہرنے کا موقع ملا۔ (2)۔ انتہائی مودب، صلہ رحمی ان کے رگ و جاں میں تھی۔ احباب کا دُکھ دیکھ کر اورسن کر تڑپ جاتے اور حتی المقدور اس کے ساتھ تعاون کرتے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے بھائی محمد ارشد بن محمد صدیق رحمہ اللہ کی شہادت ہوئی تو انھوں نے تعزیت کا خط لکھا اور اسی طرح والدہ محترمہ کی وفات پر نمازِ جنازہ میں کھرڑیانوالہ ضلع فیصل آباد شرکت کی اور تسلی دی، ان کے ساتھ عمر فاروق قدوسی(مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور)بھی تھے۔ انتہائی مہمان نواز اور دوستوں کے دوست تھے۔ جناب محترم رحمہ اللہ نے ایک دفعہ کہا کہ۸۹۔ ۱۹۸۸ء میں ’’اہلِ حدیث‘‘ لاہورکا ایڈیٹر تھا، اتفاق ایسا ہوا کہ چند علما کی وفیات پر تعزیتی شدزے لکھے۔ حضرت شیخ الحدیث حافظ محمد عبداللہ بڈھی مالوی،(حافظ صاحب رحمہ اللہ راقم کے استاد تھے، راقم الحروف نے ان سے دیوان حماسہ پڑھا، حضرت کو تقریباً زبانی ہی یاد تھا، خود ہی اشعار پڑھتے جاتے اور ترجمہ بھی کرتے جاتے)جماعت اہلِ حدیث کے مورخ مولانا عبدالخالق قدوسی اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہما اللہ وغیرہ
Flag Counter