Maktaba Wahhabi

566 - 924
میں نے ’’برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن‘‘ میں ۱۸۵ حضرات کا تذکرہ کیا ہے، جن میں سے متعدد حضرات بحمداﷲ زندہ ہیں ، مگر اخلاقاً اورجسماً مردہ ہیں ۔ ان میں سے کسی نے مجھے خط نہیں لکھا۔ آپ واحد آدمی ہیں ، جن کا خط آیا ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جس نے کوئی اچھا کام کیا ہو، اس کا ذکر کیا جائے یا اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ جماعت مُردوں کی جماعت ہے، جن کی خدمت میں ہم مصروف ہیں ! اُمید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ ا خلاص کیش محمد اسحاق بھٹی ۰۶/ ۰۸/ ۱۷ 4۔پروفیسر مولا بخش محمدی(تھرپارکر۔ سندھ)کے نام: مکتوب الیہ کے حضرت بھٹی صاحب سے دیرینہ تعلقات تھے۔ بھٹی صاحب کے ارشاد پر انھوں نے ’’دعوتِ اہلِ حدیث‘‘(حیدر آباد)میں ان کی کتاب ’’چمنستانِ حدیث‘‘ پر تبصرہ بھی تحریر کیا تھا۔ مکتوب نگار اپنے مخلص دوستوں سے کس انداز میں پیش آتے ہیں ، دیکھئے ان کا ایک مشفقانہ طرزِ عمل: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم مکرمی و محترمی پروفیسر مولا بخش محمدی! زید مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاۃ! والا نامہ ملا۔ نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے یاد فرمایا اور اس فقیر کی کتابوں کا تذکرہ کیا جو جماعت اہلِ حدیث کے اصحابِ علم کے حالات میں لکھی گئی ہیں ۔ بزرگانِ دین کے کوائفِ حیات ضبطِ تحریر میں لانا میری زندگی کا ایک حصہ ہے کسی کو میرے اسلوبِ بیان سے اتفاق ہوگا، کسی کو اختلاف۔ میں سب کا شکر گزار ہوں اور سب کو بہ صمیمِ قلب دعا دیتا ہوں ۔ جس طرح آپ کا اس خاک نشین سے ملنے کے لیے جی چاہتا ہے، اسی طرح میں بھی آپ سے ملاقات کے لیے بے تاب ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ حضرات کی خدمت میں حاضری دی جائے۔ لیکن افسوس ہے طویل مسافت کی وجہ سے حاضرِ خدمت نہیں ہو سکتا۔ اب یہی ہو سکتا ہے کہ آپ میرے لیے دعائے خیر کریں اور میں آپ کے لیے اﷲ کی بارگاہ میں دعا کروں ۔ میں ماہنامہ ’’دعوتِ اہلِ حدیث‘‘ میں آپ کی نگارشات پڑھتا ہوں اور مستفید ہوتا ہوں ۔ اگر مناسب سمجھیں تو ’’دعوتِ اہلِ حدیث‘‘ میں ’’چمنستانِ حدیث‘‘ کے متعلق چند سطور تحریر فرما دیں ۔ خوشی ہوئی کہ سندھی علمائے کرام کے
Flag Counter