Maktaba Wahhabi

179 - 924
علمائے کرام، مورخ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی نظر میں ! تحریر: جناب بشیر انصاری(ایم۔ اے)لاہور مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ: ’’میں اپنی بات آپ کے کانوں تک پہنچا سکتا ہوں ۔ آپ کے دل میں نہیں اتار سکتا۔ دل میں وہی اتار سکتا ہے، جس نے دلوں کو پیدا کیا ہے اور وہ علیم بذات الصدور ہے۔(لاہور میں تقریر)تقریر میں تحریر میں پورے ہندوستان میں کوئی ان کا حریف نہ تھا۔ علم و فضل میں بھی وہ اونچے مقام پر فائز تھے اور سیاسیات میں بھی اُن کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ ان کی وفات کے بعد برصغیر پاک و ہند میں ان کے بارے میں بے شمار کتابیں چھپی ہیں اور روز بروز چھپ رہی ہیں ، ان کے افکار و خیالات اب نکھر کر سامنے آ رہے ہیں اور لوگ نہایت دلچسپی سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ برصغیر میں جتنا کچھ اُن کے بارے میں لکھا گیا ہے، کسی مذہبی اور سیاسی راہنما کے بارے میں نہیں لکھا گیا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کی کم آمیزی اور عوام میں آنے سے گریز نے ان کی سیاسی زندگی کو بے حد نقصان پہنچایا۔ ایک طرف وہ ایڈیٹر ہیں ، مصنف ہیں ، محقق ہیں ، مقرر ہیں ، عالمِ دین ہیں ، سیاسی لیڈر ہیں ، ادیب ہیں ، لیکن دوسری طرف یہ حالت ہے کہ عوام سے دور رہتے ہیں ۔۔۔۔ حضرت مولانا ثناء اللہ امر تسری رحمہ اللہ: مولانا صاحب برصغیر کی عظیم علمی شخصیت تھے۔ ان کا شمار بیسویں صدی عیسوی اور چودھویں صدی ہجری کے اکابر علمائے کرام میں ہوتا ہے، جو بیک وقت متعدد اوصاف کے حامل تھے۔ انھوں نے اس دور میں ہوش سنبھالا، جب اس خطۂ ارض میں کئی خلافِ اسلام تحریکیں جنم لے چکی تھیں اور اسلام پر پوری شدّت سے پے در پے حملے کر رہی تھیں ، وہ ان سب کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور اسلام کی مدافعت میں اپنی تمام قوتیں صرف کر دیں ۔ وہ بہترین مقرر بھی تھے اور بلند پایہ مناظر بھی، دینی علوم کے ماہر بھی تھے اور غیر اسلامی ادیان سے باخبر بھی، مصنف بھی تھے اور محقق بھی، مفسر بھی تھے اور ماہرِ حدیث بھی، اصولی بھی تھے اور عالمِ فقہ بھی، کلامی بھی تھے اور فلسفی و منطقی بھی، مفتی بھی تھے اور اپنے اندازِ خاص سے وہ سیاست میں حصہ بھی لیتے تھے اور ملکی مسائل سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے متعدد عنوانات پر ۱۲۵ کتابیں تصنیف کیں ۔انھوں نے تمام فرقِ باطلہ کے ساتھ مناظرے کیے اور شکست فاش دی۔ وہ صحافی بھی تھے، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ امر تسر ۴۴ سال تک تسلسل سے شائع ہوتا رہا۔
Flag Counter