Maktaba Wahhabi

594 - 924
جہاں پوری، حافظ احمد شاکر، مولانا محمد یوسف انور، مولانا عبدالرشید عراقی، ڈاکٹر محمد سلیمان اظہر، مولانا مجاہد الحسینی، مولانا صلاح الدین مقبول احمد، مولانا عارف جاوید محمدی، مولانا عزیز شمس حفظہم اللہ وغیرہ کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں ۔ موجودین کی اس فہرست میں بعض حضرات کے مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے متعلق لکھے گئے مضامین و مقالات اس کتاب کا حصہ ہیں ، ان کا تعارف اس کے چودھویں باب ’’اصحابِ نگارش کا تعارف‘‘ میں لکھا گیا ہے، طوالت سے بچتے ہوئے ہم صرف مرحومین اور موجودین میں سے صرف سولہ حضرات کا انتخاب کرتے ہیں ، جن کا تعارف حسبِ ذیل ہے: 1۔مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ(وفات: ۱۶؍ دسمبر ۱۹۶۳ء): مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ عالمِ اسلام کے ایک بلند پایہ عالمِ دین، مدبر اور سیاسی شخصیت تھے۔ آپ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے بانی راہنما، اس کے پہلے صدر اور اس کے ترجمان ہفت روزہ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے نگران رہے۔ مولانا مرحوم پر وقار اور بارُعب شخصیت کے مالک تھے۔ آپ جولائی ۱۸۹۵ء کے آخری ہفتے یا اگست ۱۸۹۵ء کے پہلے ہفتے حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے گھر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ دہلی میں حضرت مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ اور بعض دیگر اساتذہ کرام سے اکتسابِ علم کیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ اپنے والدِ مکرم کی جگہ مدرسہ غزنویہ امر تسرمیں مسندِ تدریس پر متمکن رہے۔ بعد ازاں تحریکِ خلافت کے زمانے میں سیاسیات میں آگئے اور آزادیِ وطن کے لیے مختلف اوقات میں دس سال کے لگ بھگ ملک کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔ آپ مختلف اوقات میں پنجاب خلافت کمیٹی کے ناظم اعلیٰ، مجلس احرارِ ہند کے ناظم اعلیٰ، جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر، کانگریس کمیٹی پنجاب کے صدر، خضر وزارت کے خلاف مسلم لیگ کی تحریک کے ڈکٹیٹر، ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں قائم کردہ مجلسِ عمل کے ناظم اعلیٰ اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے صدر(اور امیر)رہے۔ مولانا علمائے دین کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص کسی عالم کا ناقدانہ یا مخالفانہ انداز میں ذکر کرتا تو انھیں بڑی تکلیف ہوتی۔ اس سلسلے کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ انھوں نے حصولِ آزادی کی تمام تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک کی صفِ اوّل کے راہنماؤں میں شمار ہوئے اور قید وبند کی بے پناہ صعوبتیں جھیلیں ۔ وہ ہر اس جماعت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل پڑتے تھے، جو انگریزی حکومت کی مخالفت کا نعرہ بلند کرتی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے سیاسیات میں زیادہ حصہ نہیں لیا۔ ۱۹۵۱ء میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن چونیاں (ضلع قصور)سے اسی جماعت کی طرف سے لڑا اور کامیاب رہے۔ ایک مرتبہ کلکتہ میں سیاسی قسم کا جلسہ ہوا، جس میں مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ نے تقریر کی۔ تقریر ختم ہوئی تو مولانا ظفر علی خان مرحوم نے مولانا رحمہ اللہ کو داد دی اور اسی وقت یہ شعر کہے: قائم ہے ان سے ملتِ بیضا کی آبرو اسلام کا وقار ہیں داود غزنوی رجعت پسند کہنے لگے ان کو دیکھ کر آیا ہے سومنات میں محمود غزنوی
Flag Counter