Maktaba Wahhabi

446 - 924
کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی۔ انھوں نے روایات کی مدد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و کوائف اور اعمال و اقوال کا ایک بے مثال گلستاں سجاد یا اور اپنی مساعیِ جمیلہ سے معرفت و ادرک کا ایک پیکر حسیں لوگوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔ پانچ لاکھ راویانِ حدیث: جن برگزیدہ ہستیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال کو روایت کیا یا جن شخصیتوں نے انھیں تحریر و کتابت کی سلک میں پرویا اور ان کے تحفظ و تدوین کی خدمت انجام دی، انھیں روات ِحدیث وآثار کے پرشکوہ نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر ان کے زمانے سے بعد کئی صدیوں تک کے بزرگانِ دین شامل ہیں ۔ مشہور مستشرق سپرنگر کے محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچتی ہے۔ وہ خوش بخت لوگ جنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل کیا، ان میں کم و بیش بارہ ہزار افراد کے نام اور حالات، صفحاتِ کتب میں پوری آب و تاب کے ساتھ نقش ہیں ۔ ان راویوں سے جو روایات مروی ہیں ، وہ حدیث کی کتابوں میں جوں کی توں محفوظ ہیں ۔ ان کتابوں میں صحاحِ ستہ اور مسند امام احمد وغیرہ خاص طورسے لائقِ تذکرہ ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بہت سی کتابیں اس ذخیرۂ دینی کو اپنے دامن صفحات میں سمیٹے ہوئے ہیں ۔ پھر سیرت اور مغازی کے موضوع سے متعلق مختلف زبانوں میں بے شمار کتابیں معرضِ تالیف میں آچکی ہیں ۔ روایات و احادیث اور سیرت و مغازی کی جمع و تدوین: سب سے پہلے روایات کی جمع وتدوین کے سلسلے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے کہنے سے حضرت امام زہری رحمہ اللہ نے مغازی اور سیرت کے بارے میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی، جو اس فن کی پہلی کتاب ہے۔ بعد ازاں مغازی اور سیرت کے موضوع سے متعلق کئی کتابیں ضبطِ تحریر میں آئیں ۔ حدیث، تفسیر اور سیرت وغیرہ کے سلسلے کا بہت سا مواد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کی کوشش سے صفحاتِ قرطاس کی زینت بن گیا تھا۔ عہدِ صحابہ و تابعین میں اس ضمن میں مزید تگ و تاز ہوئی اور جن لوگوں کے پاس زبانی یا تحریری صورت میں یہ سرمایۂ بے بہا موجود تھا، ان سے حاصل کرکے انتہائی احتیاط کے ساتھ جمع کیا گیا۔ وہ اس باب میں ہر سنی سنائی بات کو لائقِ التفات نہ گردانتے تھے، کیوں کہ ان کے پیشِ نگاہ ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد رہتا تھا:((کَفٰی بِالمَرئِ کَذِباً أَن یُّحَدِثَ بِکُلِّ ماسَمِعَ))(مسلم) یعنی کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی بات آگے بیان کرنا شروع کر دے۔ اس لیے انھوں نے روایات کے اخذ و قبول کے لیے انتہائی کڑی شرائط وضع کی ہیں اور سخت قسم کے اصول مدون کیے۔ اخذِ روایات کے اصول و قواعد: اصحابِ حدیث یا اہل الحدیث نے روایات کے اخذ و قبول کے لیے جو اصول و قواعد وضع کیے ہیں ، جو پیمانے
Flag Counter