Maktaba Wahhabi

242 - 924
داستانوں کا لکھاری خود بھی داستان ہو گیا تحریر: جناب مولانا محمد سلیم جباری۔ فیصل آباد آہوں ، سسکیوں اور بھیگی پلکوں کے ساتھ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے باہم تعزیت کے جملوں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ ہر کوئی اسے اپنا سمجھ کر غم زدہ دکھائی دے رہا تھا اور دوسروں کے اسی تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے یادوں کو دہرا رہا تھا۔ مشترکہ درد کی اس تکلیف نے شہر سے دور افتادہ ایک گاؤں میں سب کو اکٹھا کر دیا تھا، جہاں وہ آخری بار اس کا زندگی بھر مسکراتا رہنے والا چہرہ دیکھنے آئے تھے۔ یہ منظر تھا عشا کی نماز کے وقت جڑانوالہ کے نواح میں گاؤں ۵۳ گ ب ڈھیسیاں کی جامع مسجد کا، جہاں مورخِ عصر مولانا محمد اسحاق بھٹی کا جنازہ پڑھا جانے والا تھا۔ کڑے سفر کا تھکا مسافر تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے جنازے سے قبل جناب حافظ احمد شاکر، جناب مولانا محمد یوسف انور، جناب مولانا عبداللہ امجد چھتوی اور دیگر کئی احباب نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ سب کے جذبات میں ایک چیز مشترک تھی، سبھی کہہ رہے تھے کہ مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ میرے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ ہاں انھوں نے زندگی بھر جس سے بھی ملاقات کی، اسے اپنا سمجھا۔ ہر کسی کو بازو پھیلا کے سینے سے لگایا اور یوں احساس دلایا کہ میں تو تجھ سے برسوں سے واقف ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نام اور کام کو قبولیتِ عامہ سے نوازا تھا۔ اُن کے جنازے میں ’’جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ‘‘ کے اساتذہ کی معیت میں شرکت کا موقع ملا۔ چہرے کو آخری بار دیکھنے کی غرض سے قطار میں جا کھڑا ہوا، جب قریب پہنچا تو آخری لباس کی سفیدی کے جھروکے سے روشن چمکتا چہرہ کفن کے رنگ سے ہم آہنگ دکھائی دیا۔ دنیاوی میل کچیل دھل چکی تھی۔ دل نے بے اختیار گواہی دی کہ اے اس دنیا سے جانے والے! عرش والے نے تیری کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا فرما دیا ہے۔ داستانیں لکھنے والا آج خود داستان بن چکا تھا۔ دوسروں کے تذکار کو بقا دینے والا آج خود محتاجِ دعا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ فردِ واحد نے وہ کام کیا کہ بڑے بڑے ادارے بھی نہ کر پائے اور جماعتیں عاجز دکھائی دیں ۔ بلاشبہہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ بلا کی قوتِ حافظہ قدرت کا عطیہ تھی، جس کا مثبت استعمال کرکے ڈیڑھ صدی کی تاریخ کو محفوظ کر دیا۔ سوچ رہا تھا کی آپ کی سوانح کے بارے میں کچھ لکھوں ، مگر ’’گزر گئی گزران‘‘ کی موجودگی میں ہمت ہی نہ ہو پائی، کیوں کہ نہ تو میں اس سا لکھ سکتا تھا اور نہ اُن سا۔
Flag Counter