Maktaba Wahhabi

734 - 924
شناورانِ علم و تاریخ کے لیے کسی نادر خزینے سے کم نہیں ۔ آپ کی چالیس کے قریب تصانیف عصری تقاضوں کی روشنی میں علمائے اسلام کے ہمہ گیر تعارف کے حوالے سے قابلِ تحسین ہیں ۔ ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘، ’’برصغیر پاک و ہند میں علمِ فقہ‘‘ تو علم و تاریخ کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہیں ۔ مولانا مرحوم وسعتِ نظری اور محبت و الفت کا پیکر تھے۔ وسعتِ نظری کا یہ عالم تھا کہ بلا کسی تعصب کے تمام مکاتبِ فکر کے نامور علما کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا۔ آپ حقیقتاً علمائے سلف کی یادگار تھے۔ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا جیسا ایک اور نابغۂ عصر جماعت کو عطا کرے، تاکہ ان کے قلم سے شروع کیے جانے والا مبارک سلسلہ ’’تاریخِ اہلِ حدیث‘‘ روز افزوں ترقی کر سکے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اپنی جنتوں کا وارث بنائے اور پسماندگان کو صبرِ جمیل بخشے۔ آمین 26۔جناب عمار چوہدری(کالم نگار: روزنامہ ’’دنیا نیوز‘‘ لاہور): ایک عظیم رجلِ رشید مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا شمار برصغیر پاک و ہند کے نامور علمائے حدیث میں ہوتا ہے۔ مرحوم میرے نانا جان چودھری غلام حسین تہاڑیہ کے جگری دوست تھے۔ نانا جان ان سے ایک سال بڑے ہیں ۔ وہ جب بھی لاہور تشریف لاتے ان کی کوشش ہوتی کہ انھیں حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ضرور ملوایا جائے۔ دونوں دوست جب ملتے تو اتنی خوبصورت محفل جمتی کہ دیکھ کر رشک آتا۔ انھیں مسکراتا دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا۔ دونوں بزرگ ہستیاں پرانی یادیں تازہ کرتے۔ ہم صرف ان کی باتیں سماعت کرتے اور اپنا دامن ان سبق آموز پرانے قصوں سے بھر لیتے۔ ایک معروف مقولہ ہے کہ کسی عالم کے پاس چند لمحے گزارنا کثیر تعداد میں کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے۔ یہ شاندار جملہ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ کیا عظیم انسان تھے۔ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتے تھے۔ ان کے متعلق بہت سی عمدہ یادیں سینے میں محفوظ ہیں ۔ کبھی انھیں احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کروں گا۔ بلاشبہہ آپ ایک عظیم رجل رشید تھے۔ ۲۵۔ مئی ۲۰۱۵ء کو اپنی والدہ مرحومہ کے ساتھ گاؤں تلونڈی گیا، تو ناناجان نے کہا: میرا دل کرتا ہے کہ میں اسحاق بھٹی صاحب کو کسی دن اپنی گاڑی میں بٹھاؤں اور تلونڈی لے آؤں ۔ وہ یہاں جمعہ پڑھائیں اور سارا دن یہیں گزاریں ۔ میں ان کے حکم کی تعمیل کے لیے موقع کی تلاش میں تھا کہ ۱۰؍ اپریل ۲۰۱۵ء کو میری والدہ ماجدہ کی طبیعت کافی خراب ہوئی۔ وہ ایک ماہ ہسپتال میں گزار کر ۸؍ مئی کو وفات پا گئیں ۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے فون پر تعزیت کی اور دعاؤں سے نوازا۔ میں پہلے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں کالم لکھتا تھا۔ پھر ’’دنیا نیوز‘‘ میں چلا گیا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ایک دفعہ فرمانے لگے کہ برخوردار یہ نہ سمجھنا: ’’اخبار بدلنے سے تمھارا کالم پڑھنا چھوڑ دوں گا۔ میں انٹرنیٹ پر تمھارے کالم پڑھ لیتا ہوں ۔‘‘ یہ ان کا بڑا پن تھا۔ وسعتِ نظری تھی۔ تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں وہ تمام اسلامی ممالک میں شہرت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت رحمہ اللہ کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کے اہل و عیال، محبین ومنتسبین کو صبرِ جمیل بخشے۔ آمین
Flag Counter