Maktaba Wahhabi

337 - 924
آہ! تاریخ نے دم توڑ دیا تحریر: جناب عابد رحمت۔ فیصل آباد ’’میں آپ کی شخصیت پر مضمون لکھنا چاہتا ہوں ‘‘ میں نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا، وہ کہنے لگے: ’’نہیں تم رہنے دو اور بہت سے لوگوں نے مضامین لکھے ہیں ، بس اتنا ہی کافی ہے، تم کچھ اور علمی کام کرو۔‘‘ میں نے کہا: ’’یہ بھی تو ایک علمی کام ہے‘‘، اس پر وہ بطور مزاح کہنے لگے: یہ علمی نہیں فلمی کام ہے۔ لیکن میں نے اصرار کیا اور جاتے ہوئے بھی میں نے ان سے کہا کہ میں مضمون لکھ کر آپ کو دکھاؤں گا، انھوں نے کہا: ’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ یہ میری ان سے آخری گفتگو تھی، جب وہ مجھے اپنے گھر سے الوداع کررہے تھے۔ اپنی وفات سے چند دن قبل انھوں نے میرے استاد محترم مولانا فاروق الرحمن یزدانی صاحب کو فون کیا اورمیرے بارے میں پوچھا کہ عابد کافی دنوں سے آیا نہیں ؟ اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے سلام بھیجا اور یہ سلام بھی میرے لیے ان کا آخری سلام تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ پیپر ختم ہوتے ہی سیدھا ان کے ہاں حاضری دوں گا اور ان کی زیا رت کروں گا، لیکن آج وہ نظروں سے اوجھل ہوچکے ہیں اور اتنی دور چلے گئے ہیں کہ میں ان سے گفتگو نہیں کر سکتا اور نہ ان کی زیارت ہی کر سکتا ہوں ، ہاں میں نے ان کی زیارت توکی اور بوسہ بھی لیا، مگر اس حالت اور کیفیت میں کہ نہ وہ مجھ سے کلام کر سکتے تھے، نہ وہ مجھ سے ہاتھ ملاسکتے تھے اور نہ وہ مجھے گلے ہی لگا سکتے تھے۔ میری آنکھوں میں بہتے آنسوؤں کو وہ پونچھ نہیں سکتے تھے، وہ ہر دم ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہر کسی سے ملتے، مگر آج جب میں نے ان کو دیکھا تو ان کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا، مجھے مسکراہٹ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے چہرہ بھی بڑی مشکل سے ہجوم میں دھکے کھاتے ہوئے دیکھا۔ پہلے تو میں جب ان کے ہاں جاتا تو وہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر مجھ سے محوِ گفتگو ہوتے، مگر آج وہ میری طرف دیکھ تک نہیں رہے تھے۔ پہلے وہ مجھے الوداع کیا کرتے تھے، مگر آج میں انھیں الوداع کر رہا تھا، جن کی زباں پر کبھی تاریخ رواں رہتی، تاریخی جھروکوں سے قرطاس کو زینت بخشتے، اپنے قلم سے شخصیات پر پھولوں کی برکھا برساتے، آج وہ خود تاریخ کاحصہ بن گئے۔ میرے اس قلم کو نہ جانے پہلے کیا ہوا تھا کہ ان کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے سے پہلے جنبش نہ کر سکا، مگر آج یہ
Flag Counter