Maktaba Wahhabi

50 - 924
عظمت و سادگی کا حسیں پیکر مورخ اہلِ حدیث حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تحریر: جناب بشیر انصاری(چیف ایڈیٹر: ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ لاہور) جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آبِ بقائے دوام لے آ ساقی نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد مجھے تھوڑا سا آرام کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ موبائل بھی بیڈ سے قدرے ہٹ کر چارجنگ پہ لگا رکھا تھا۔ موبائل کی دو تین بار گھنٹی بجی، مگر جلدی سے سن نہ سکا۔ پھر ایک افسوسناک میسج آیا، مگر اس پر یقین نہ آیا کہ اللہ کرے یہ خبر غلط ہو، مگر مولانا محمد سلیم چنیوٹی مینجر ’’الاعتصام‘‘ نے محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی کی وفات حسرت آیات کی تصدیق کر دی اور میری زبان پر ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘ کے الفاظ جاری ہو گئے اور قرآنِ مجید کی یہ آیتِ کریمہ بھی ذہن میں آگئی کہ ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ﴾ ’’موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔‘‘ یہ بھی قرآن پاک کا ارشاد ہے: ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ﴾ [النساء: ۷۸] یعنی ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے، موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ واضح ہوا کہ زندگی اور موت لازم و ملزوم ہیں ۔ اس عالمِ رنگ و بو میں سانس لینے والے ہر ذی روح کو ہر صورت موت سے دو چار ہونا ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے: ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ *وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴾ [الرحمن: ۲۶۔ ۲۷] یعنی ’’روئے زمین پر جو کچھ ہے، وہ سب کا سب فنا ہونے والا ہے۔ صرف تیرے رب کی ذات، جو صاحبِ عظمت و احسان ہے، باقی رہ جائے گی۔‘‘ اسی عالمگیر قانون کے تحت مورخِ اہلِ حدیث، ممتاز دینی سکالر، صاحبِ طرز ادیب، کتبِ کثیرہ کے مصنف، مولف، مترجم اور معروف عالمِ دین مولانا محمد اسحاق بھٹی، ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کے روز داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔ وہ زندگی کی ۹۱ بہاریں دیکھ چکے تھے۔ ابھی صحت اچھی تھی، معمولاتِ زندگی رواں دواں تھے۔ پڑھنا لکھنا جاری تھا، مگر موت سے کس کو مفر ہے؟ وہ وقت مقرر پر آجاتی ہے۔ اس دنیا میں جو بھی آتا ہے، جانے کے لیے آتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے:
Flag Counter