Maktaba Wahhabi

114 - 924
غزنوی رحمہ اللہ (م، ۱۳۳۱ھ)۔ حضرت الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں حضرت العلّام شیخ العرب والعجم، استاذ العلماء حضرت مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ نے اپنی ساری زندگی درس و تدریس میں بسر کر دی۔ ان کی تدریسی مدت نصف صدی سے زیادہ ہے۔ ان کے علم و فضل کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا اور ان کے علمی تبحر کا اعتراف علمائے سعودی عرب نے بھی کیا ہے۔ حضرت العلّام جس زمانے میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاذ ِحدیث تھے تو ایک دفعہ علامہ شیخ محمد امین الشنقیطی رحمہ اللہ مصنف تفسیر ’’اضواء البیان‘‘ نے فرمایا: ’’ما رأیت أعلم علی وجہ الأرض من ھذا الشیخ‘‘ ’’میں نے روئے زمین میں ان جیسا جامع العلوم عالم نہیں دیکھا۔‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (1)۔ حضرت محدث گوندلوی رحمہ اللہ کو تفسیر، حدیث، فقہ، عربی ادبیات، فلسفہ، منطق، معانی، بیان اور صرف و نحو وغیرہ علومِ متداولہ و مروجہ میں یکساں عبور حاصل تھا۔ یعنی معقولات و منقولات دونوں اصنافِ علم پر ان کی گہری نظر تھی۔ کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو پتا چلتا کہ اس کے تمام پہلوؤں پر ان کی پوری گرفت ہے۔ ذہانت فطانت اور وسعتِ علم میں اس صدی کا کوئی معروف عالم ان کا حریف نہ تھا۔(نقوش عظمتِ رفتہ، ص: ۱۳۳) (2)۔ حضرت حافظ صاحب مصنف بھی تھے۔ ان کا ذہن علم کا گنجینہ اور بو قلموں معلومات کا سفینہ تھا۔ ان کو عربی، اردو، اور فارسی، تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اور ان زبانوں کے علوم پر ان کی گرفت تھی۔ چنانچہ اردو میں بھی بہت لکھا، عربی میں بھی، البتہ فارسی میں کچھ تحریر نہیں فرمایا۔(ص: ۱۴۴) (3)۔ حضرت امام گوندلوی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ذوقِ عبادت کی دولت سے خوب خوب نوازا تھا۔ نماز کے وقت بے چین ہو جاتے تھے۔ فوراً مسجد تشریف لے جاتے تھے، تکبیرِ اُولیٰ کبھی فوت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔(ص: ۱۵۲) 2۔مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ(م، ۱۹ ؍ دسمبر۱۹۷۳ء): مولانا محمد علی رحمہ اللہ کی آواز بڑی موثر تھی۔ کبھی کبھی وہ فجر کی اذان کہا کرتے تھے۔ ان کی اذان سن کر ایک غیر مسلم گھرانہ مسلمان ہو گیا۔(بزمِ ارجمنداں ، ص: ۲۲۹) ’’حضرت مولانا عالی مرتبے کے عالم تھے۔ ان کی نرمی ان کی جراَت کی غماز، ان کا انکسار ان کے جلال کا عکاس اور ان کی تواضع ان کی بے نیازی کی آئینہ دار تھی۔ کسی کے سامنے جھکنا اور خود داریِ نفس کو عارضی مفاد کی بھینٹ چڑھا دینا ہرگز ان کا شیوہ نہ تھا۔ وہ ایک اونچے خاندان کے اونچے رکن تھے۔ اپنے خاندانی وقار، علمی مرتبے اور عزتِ نفس کی انتہائی حفاظت کرتے تھے۔‘‘(ص: ۲۴۶)
Flag Counter