Maktaba Wahhabi

534 - 924
صاحب مرحوم کی یادگار ہے۔ جماعت کے لوگ غریب ہیں ۔ نیز علاقہ بھی بہت پسماندہ ہے۔ لہٰذا آپ ہر ممکن کو شش کر کے بہت جلد خوشی کا پیغام دیں ۔ دعا گو ابو المساکین صوفی محمد عبداﷲ مہتمم مدرسہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن مُہر [1] 11،12۔حافظ فتح محمد فتحی رحمہ اللہ کے دو مکاتیب: اہلِ علم، بزرگ شیوخ اور طلبائے دین سے محبت کرنے والی شخصیت کا نام حافظ فتح محمد فتحی رحمہ اللہ ہے۔ آپ دلکش سراپا کے مالک تھے۔ ضلع چکو ال(پنجاب)کے ایک گاؤں بصیرپور سے تعلق رکھتے تھے۔ اَن پڑھ خاندان میں پیدا ہوئے۔ اللہ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ مد ینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے اور حرم مکی میں مدرس مقرر کر دیے گئے۔ موصوف سخاوت کی صفت سے بھی خوب متصف تھے۔ اہلِ علم کو کتابیں خرید کر ہدیہ کرتے تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آپ مادر زاد نابینا تھے، لیکن اﷲ نے انھیں بصیرت کی صفت سے بہرہ ور فرمایا تھا۔ شیخ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ انھیں بطور خاص اپنا عزیز شاگرد گردانتے تھے۔ پاکستانی علما کی ان کے ہاں خوب محفل جمتی۔ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۸۴ء کو مکہ مکرمہ میں رحلت فرمائی۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ان سے پُر خلوص تعلقات استوار تھے، جس کا اندازہ ذیل کے ان دو خطوط سے کیا جا سکتا ہے۔ مولانا بھٹی مرحوم لکھتے ہیں : ’’حافظ فتحی صاحب رحمہ اللہ سے میری کچھ عر صہ خط و کتابت رہی۔ ایک خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ آپ حج کے لیے آئیں تو میرے مہمان ہوں گے۔ افسوس ہے، یہ خط کہیں کاغذات میں اِدھر اُدھر ہوگیا۔ دو خط البتہ مل گئے ہیں ۔ ۱۹۸۳ء میں میرے ایک دوست چودھری غلام نبی عزیز(جو اس وقت واپڈا کے ایک شعبے کے ڈائریکٹر تھے)حج کے لیے گئے تھے۔ میں نے ان کے ہاتھ حافظ صاحب کو اپنی ایک کتاب بھجوائی تھی اور بذریعہ ڈاک خط ارسال کیا تھا۔ حافظ صاحب نے میرے خط کے جواب میں مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا۔ یہ خط ۳۰؍ ستمبر ۱۹۸۳ء کا رقم فرمودہ ہے۔ اسی سال(۱۹۸۳ء میں )مولانا عبدہ الفلاح بھی فریضۂ حج ادا کرنے گئے تھے۔‘‘ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم مکرم و محترم جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب! دامت برکاتہ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
Flag Counter