Maktaba Wahhabi

368 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے ایک ملاقات تحریر: جناب نذیر احمد اسد سندھو۔ گوجرانوالہ یوں تو زندگی میں بڑے بڑے ذہین اور حاضر دماغ افراد سے رابطہ اور واسطہ رہا ہے، لیکن ہم نے جس طرح ممدوح محترم محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کو پایا، ہم اس پر حیران و ششدر ہی نہ رہ گئے، بلکہ اظہارِ تشکر کے طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بھی بجا لائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے مسلک اور ہماری جماعت کو کس کس طرح کے ہیرے عطا کیے ہیں ۔ ہوا یوں کہ ہمارے قصبہ بدو ملہی کے قریبی گاؤں اکال گڑھ کی جامع مسجد کے خطیب مولانا عبدالحمید مغل کے ہمراہ مجھے ایک دفعہ لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم بھاٹی گیٹ کے نواح سے گزرے تو میں نے ان کی مسلکی محبت اور احبابِ سلف سے دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب سمجھا کہ ان کو شیش محل روڈ پر موجود مدرسہ غزنویہ تقویۃ الاسلام لے کر جاؤں ۔ مدرسہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا سالانہ زرِ تعاون ادا کرنا ہے، اس لیے آئیں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر سے بھی ہو آئیں ۔ وہاں پہنچ کر مجھے ذاتی طور پر تو بڑا فائدہ ہوا کہ میں نے وہاں سالانہ چندہ بھی جمع کروا دیا اور لائبریری سے اپنی ضرورت کی چند کتابیں بھی دیکھ لیں ، لیکن مولانا عبدالحمید مغل وہاں کچھ مایوس نظر آئے۔ البتہ اس وقت ہماری ساری تھکن دور ہو گئی، جب مجھے معلوم ہوا کہ مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی دفتر میں موجود ہیں ۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کو السّلام علیکم کہا اور اپنا تعارف کروایا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور استاذی المکرم حکیم عبدالرحمن خلیق امر تسری رحمہ اللہ کی باتیں شروع کر دیں ۔ کہنے لگے تم وہی نذیر احمد اسد ہو، جس نے حکیم عبدالرحمن خلیق رحمہ اللہ کی وفات پر ان کے حوالے سے مضمون لکھا تھا اور پھر مضمون کی کئی باتیں دہرا کر انھوں نے مرحوم کی یاد تازہ کر دی۔ انھوں نے کہا کہ تمھارا وہ مضمون ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ ، ’’صحیفہ اہلِ حدیث‘‘، ’’الاعتصام‘‘ اور ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ میں بھی شائع ہوا تھا۔ میں ان کے جنازے میں تو شریک نہیں ہو سکا تھا، لیکن مجھے یاد ہے کہ ان کا جنازہ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ نے پڑھایا تھا اور پروفیسر عبدالرحمان لدھیانوی حفظہ اللہ بھی جنازے میں شرکت کے لیے لاہور سے گئے تھے۔ تم نے حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ کی رحلت پر جو مضمون لکھا تھا، میں نے وہ بھی پڑھا تھا، لیکن اس میں مضمون کی بجائے جنازے کے منظر کی عکاسی زیادہ تھی۔ بہرحال یاد رفتگاں پر لکھنے والے لوگ مجھے اچھے لگتے
Flag Counter