Maktaba Wahhabi

554 - 924
کتاب پڑھ کر وہ آپ سے ملاقات کے شائق ہیں ۔ بالعموم سفر سے گھبراتے بھی ہیں ۔ دیکھیں کب، کہاں اور کیسے ملاقات کرتے ہیں ؟ ان کی طرف سے بہت بہت سلام اور دعائیں ۔ اللہ کریم آپ کو دارین کی فلاح سے نوازے۔ آمین۔ والسلام دعا گو و دعاجو ابوحمزہ سعید مجتبیٰ السعیدی دارالسعادۃ۔ اندرونِ قلعہ منکیرہ ضلع بھکر پوسٹ کوڈ ۳۰۰۶۰۔ ۱۰؍ اگست ۲۰۰۸ء 20۔ایک فقیرانہ مکتوب: اب آخر میں ایک فقیرانہ مکتوب درج کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ ہے خاک سار راقم کا مکتوب۔ یہ باب حضرت مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے نام علمائے عصر یا مشاہیر علمائے کرام کے خطوط سے مزین کیا گیا ہے، جب کہ میں کوئی بہت بڑا عالم ہوں نہ ادیب۔ البتہ علم اور علمائے حدیث کا خادم ضرور ہوں ۔ جن علمائے کرام کے مکاتیب یہاں درج کیے گئے ہیں ، وہ سب اونچی نسبتوں کے مالک ہیں ۔ سچی بات تو یہی ہے کہ علما حضرات کی اس کہکشاں میں راقم عاجز کی شمولیت کی کوئی تُک نہیں بنتی کیوں کہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘ پھر یہ سوچتا ہوں کہ جہاں اتنے سارے علما اور دانشور جمع ہیں ، وہاں کم از کم ان کے ایک خادم کا ہونا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اسی حیثیت سے شرکت کی اجازت چاہتا ہوں ۔ امید ہے کہ کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شفقت و محبت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ اپنے محبین کو شائع ہونے والی اپنی ہر نئی کتاب تحفے کے طور پر بھجواتے تھے۔ ’’چمنستانِ حدیث‘‘ کی اشاعت(مئی ۲۰۱۵ء)پر انھوں نے اس کا ایک نسخہ راقم کو بھجوایا تو میں نے شکریے کے اظہار کے لیے ان کی خدمت میں وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے ایک مکتوب روانہ کیا، جس کا انھوں نے جواب بھی عنایت فرمایا تھا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ میں شوگر اور بلڈ پریشر کی زیادتی کی وجہ سے کافی بیمار تھا۔ مولانا مرحوم کو جب معلوم ہوا تو وہ ہفتے میں ایک آدھ بار خود زحمت فرماکر فون پر خیریت پوچھتے۔ اس دوران میں عیدالاضحی ۱۴۳۶ھ کے موقع پر انھوں نے فون پر میرے بچوں سے بھی بات کی اور ان کے لیے عیدی بھی بھیجی۔ اس قدر کرم فرمائی پر میں نے پُرخلوص دعاؤں کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا اور مزید دعاؤں کی درخواست بھی کی۔ تیری عنایتوں کا مجھے اعتراف ہے کہ تونے مجھے میری زندگی کا مقصد بتا دیا
Flag Counter