Maktaba Wahhabi

30 - 924
چھٹا باب: مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے چند خطوط: مولانا ممدوح رحمہ اللہ ایک ممتاز تاریخ نویس تھے۔ انھوں نے تاریخی شخصیات کے حالات و افکار اور خدمات کو احاطۂ تحریر میں لانے کے لیے ثقہ ذرائع استعمال کیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اندرون و بیرون ملک کے اصحابِ علم و قلم سے باقاعدہ خط کتابت کی۔ میں نے الحمدللہ اپنے ذاتی و سائل کے بل بوتے پر مشہور علما و فضلا، شیوخ الحدیث اور اہلِ قلم سے رابطہ کرکے ان سے مولانا رحمہ اللہ کے مکاتیب کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ جمع کرکے اس پر باقاعدہ ادبی رنگ میں کام شروع کر رکھا ہے۔ ان شاء اللہ جب مکاتیب کا یہ دبستان مکمل ہوگا تو مولانا مرحوم کی یادوں کے اُجالے اور زیادہ روشن ہوجائیں گے۔ ’’ارمغانِ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘میں بھی اس حوالے سے ایک باب مختص کیا گیا ہے۔ صرف اکیس اہلِ قلم کے بیس خطوط کا انتخاب کر کے یہاں درج کیا گیا ہے۔ یعنی ہر صاحبِ قلم کا صرف ایک خط۔ ساتواں باب: مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے بعض معاصرین: مولانا مرحوم نے ایک لمبی زندگی اہلِ علم و ادب کے مابین گزاری ہے، اس لیے ان کے معاصرین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ارمغان کے محدود صفحات تمام حضرات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ صرف سولہ معاصر علمی شخصیات کا انتخاب کرکے اس باب کو ان کے تذکار سے مزین کر دیا گیا ہے۔ آٹھواں باب: گھر کے چراغ(اہلِ خانہ کی تاثراتی تحریریں ): یہ باب جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، حضرت مولانا مرحوم کے اہلِ خانہ کے تاثراتی مضامین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ لکھنے والوں میں آپ کے برادرِ اصغر جناب سعید احمد بھٹی، جناب حافظ محمد حسان سعید بھٹی(بھتیجا)، جناب محمد نعمان اسحاق(نواسہ)، جناب محمد معوذ الرحمان(بھانجا)، محترمہ سمیہ زیرک(صاحبزادی)اور محترمہ قدیسہ سعید(بھتیجی)شامل ہیں ۔ ان تاثراتی مضامین سے ممدوح گرامی کی بے آمیز و بے لاگ شخصیت اور اپنی فیملی اور بچوں سے بے پناہ محبت کا تصور آشکار ہوتا ہے۔ نواں باب: افکارِ اہلِ سخن: ’’ارمغانِ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘کی ایک منفرد خوبی یہ ہے کہ اس میں حضرت بھٹی مرحوم کے متعلق اُردو مضامین کے علاوہ پانچ دیگر زبانوں (عربی، سرائیکی، سندھی، پنجابی اور انگریزی)میں بھی مقالات شامل کیے گئے ہیں ۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان زبانوں میں ایک عظیم مورخ کے حالات و خدمات کو سادہ اور عام فہم انداز میں پہلی مرتبہ تحریر کیا گیا ہے، جو الحمدللہ ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین دسواں باب: قومی اخبارات و جرائد کا خراجِ تحسین: مولانا بھٹی صاحب کی وفات طبقہ اہلِ علم کے لیے کسی قومی سانحے سے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض قومی
Flag Counter