Maktaba Wahhabi

365 - 924
آہ۔۔۔ ہمارے انتہائی لائقِ تکریم بزرگ تحریر: جناب حافظ اسامہ شاکر۔ لاہور آہ۔۔۔ ہمارے انتہائی واجب الاحترام، لائقِ تکریم بزرگ ہمارے پردادا جی حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے شاگردِ رشید اور ہمارے لیے سراپا محبت و اخلاص حضرت مولانامحمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ بھی اس عالمِ رنگ و بو سے منہ موڑ کر خلدِ بریں کے مہمان بن گئے۔ ان کے جانے سے کئی ایک کے دل غمگین ہوئے اور ان کے جانے سے کئی ایک محفلیں سونی سونی سی لگتی ہیں ۔ جب سے راقم نے ہوش سنبھالا، آپ ایک تر و تازہ شخصیت ہی نظر آتے تھے۔ ہم اور ہمارے اہلِ خانہ کے دکھ سکھ کے ساتھی ہی نہیں ، بلکہ ہمارے حالات سے بھی آگاہ رہتے تھے۔ ہمارے ساتھ ان کی شفقتیں اور محبتیں اسی طرح تھیں ، جس طرح ایک خاندان کے کسی غم خوار بزرگ کی ہوتی ہیں ۔ ان کی کس کس شفقت کو ہم یاد کریں اور کس یاد کو ہم فراموش کریں ، سمجھ سے بالا ہے۔ راقم کا چار برس قبل قرآنِ کریم ختم ہوا۔ رمضان المبارک کی پُر رحمت بہاریں تھیں اور دعا کے لیے میرے دادا جی محترم حافظ احمد شاکر نے مرحوم حضرت بھٹی صاحب کو مدعو فرمایا۔ اُنھوں نے نہایت اخلاص اور محبت سے دعائے خیر فرمائی اور میرے اور میرے والدین کے لیے پھر والدین کے بھی والدین کے لیے خشوع و خضوع سے دعا فرمائی۔ یہ دعا کیا تھی، بس ہم اس کو اپنی زندگی کا توشہ ہی سمجھیں گے، اور اللہ کریم سے اب ہم ان کے لیے ہمیشہ دعائیں کریں گے۔ اللہم اغفرلہ و ارحمہ وعافہ و اعف عنہ۔ حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اکثر دادا جی محترم حافظ احمد شاکر صاحب سے محبت و اخلاص سے ملنے آتے اور انھیں ہمیشہ خوش رکھنے کی باتیں کرتے تھے۔ یہ صرف ہمارے ہی خاندان سے نہیں ، بلکہ ان کی وفات کے بعد دار الدعوۃ السلفیہ میں جو آدمی بھی آیا، وہ ایسی باتیں کرتا ہے کہ بھٹی صاحب ہمیشہ ہمارے ہی تھے۔ میرے ساتھ بڑی گہری محبت تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقِ خدا یعنی عوام الناس کی اکثریت جنھیں حضرت مرحوم سے شناسائی تھی یا انھیں ان سے ملنے کا اتفاق ہو گیا، مرحوم ہر کسی سے بڑے ہی تپاک سے ملتے اور ملنے والا بھی آپ کے اس انداز سے انھیں ایسے سمجھتا کہ بھٹی صاحب میرے لیے بڑے مخلص و ہمدرد ہیں ۔ آج ان کے فراق میں دل جہاں غمگین ہے، وہاں ان کی بلندی درجات کے لیے بھی ہر کس و ناکس رطب اللسان ہے۔
Flag Counter