Maktaba Wahhabi

747 - 924
1۔ کوئی تو ہو… حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت کے بارے میں کچھ عرصہ سے دھڑکا سا لگا رہتا تھا۔ وہ برصغیر کے عظیم رجال کے بارے میں لکھتے وقت کبھی کبھی اپنے بارے میں بھی ایک آدھ جملہ تحریر کر جاتے تھے، جسے پڑھ کر احساسِ جدائی کی شدت بڑھ جاتی تھی۔ بقول علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ: کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں راقم ایک دفعہ شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ(راجووال)کی خدمت میں حاضر تھا، باتوں باتوں میں انھوں نے فرمایا: ’’چند لوگ باقی ہیں جو صورتِ شمع روشن ہیں ۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’کون کون سے؟‘‘ تو فرمانے لگے: ’’مولانا معین الدین لکھوی، شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوری، مولانا محمد یحییٰ میر محمدی، مولانا عبداللہ گورداس پوری، اور …اور‘‘ ان کی آواز رندھ گئی۔ میں نے پوچھا: ’’جی، اور کون؟‘‘ فرمایا: ’’چوہدری اسحاق۔‘‘ پوچھا: ’’چوہدری اسحاق کون؟‘‘ گویا ہوئے: ’’اسحاق بھٹی۔ ایک وقت تھا میں انھیں چوہدری اسحاق کہا کرتا تھا۔‘‘ پھر تفصیلاً بتایا کہ اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کبھی بڑی رعب دار مونچھیں رکھتے تھے، جس کی وجہ سے میں انھیں ’’چوہدری‘‘ کے نام سے پکارتا تھا۔ پھر شدتِ احساس سے مولانا رحمہ اللہ کی آواز گلے میں اٹک گئی اور آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ آج وہ نمی میرے دیدوں میں بھر گئی ہے اور دل کی حدت تیز ہو گئی ہے۔ ایک سب آگ، ایک سب پانی دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں برصغیر کی نامور شخصیات کی تذکرہ نویسی میں اتھارٹی سمجھا جانے والا قلم کار خود اپنے تذکرے کا چیلنج کر کے قبر میں جا سویا ہے۔ کوئی ہے جو اُردو ادب میں اُن کے اسلوب کا وارث بن کر ان کے حالاتِ زندگی پر قلم کی گل کاریاں کر سکے؟ کوئی ہے جو تاریخی بصیرت کو ادب کی چیز بنا سکے؟ کوئی ہے جو قلم کی نوک سے ماضی کی راکھ کریدے اور بجھتی ہوئی چنگاریوں کی تلاش کرے؟ کوئی ہے جس کی تحریر مدہم ہوتی ہوئی دلوں کی دھڑکنوں کو حرارت دے اور دماغوں کو علو بخشے؟ کوئی ہے جو جنازہ پڑھنے اور تدفین کے بعد بھی حق دوستی نبھائے؟ وہ بڑے بڑے قرض چکا گیا…اب اس کا قرض کون چکائے گا۔ کوئی تو ہونا چاہیے… آخر کوئی تو ہو…۔
Flag Counter