Maktaba Wahhabi

227 - 924
دوبارہ رابطہ: بڑے عرصہ بعد ۲۰۰۰ء میں جن دنوں میں طارق اکیڈ می سے منسلک تھا، محترم برادرم محمد سرور طارق حفظہ اللہ نے جو اِن دنوں برطانیہ میں تھے، اکیڈمی کے ذمے دار کے توسط سے مجھے ایک لفافہ دیا کہ اس کی پروف ریڈنگ کرنی ہے۔ دو تین روز بعد جب میں نے اس لفافے کو کھولا تو میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی، میں اﷲ تعالیٰ کی مشیتِ کاملہ پر سجدہ ریز ہو گیا کہ سبحان اﷲ! جو کام اس وقت نہ ہو سکا، اﷲنے اس کام کا یہی وقت مقرر کیا ہوا تھا تو کیسے ممکن تھا کہ اس وقت ہو جاتا؟ لیکن یہ بھی تو اسی کا فیصلہ تھا کہ یہ کام میرے ہی ہاتھوں سرانجام پائے، اب اس خدمت کا اس نے موقع فراہم کر دیا۔ الحمد للّٰہ، ثم الحمد اللّٰہ ۔ اﷲ کا نام لے کر اس کام کا آغاز کر دیا۔ پہلے میں نے ’’الاعتصام‘‘ کے وہ کٹنگ پڑھے، جن سے اسے کمپوز کیا گیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ’’الاعتصام‘‘ کی یہ اقساط نامکمل ہیں ، میں نے ان کی نشاندہی کر دی، اس کے بعد کمپوز شدہ مواد کو سرسری طور پر دیکھا، پھر کچھ دنوں کے لیے اس کو چھوڑ دیا، تاکہ اپنے ذہن کو مکمل طور پر تیار کر سکوں ، اس لیے کہ اس سے پہلے اس منزل سے گزر چکا تھا اور مجھے اس کام کی نوعیت کا اندازہ تھا، لیکن ایک طویل عرصہ بعد چونکہ دوبارہ کرنا تھا، اس لیے خود کو تیار کرنا ضروری تھا۔ کم و بیش ڈیڑھ دو ہفتے گزر گئے، کام شروع نہ ہو سکا۔ اکیڈمی کی طرف سے تقاضا بڑھتا جا رہا تھا، بادلِ نخواستہ کاغذ قلم پکڑا اور اﷲ کا نام لے کر شروع کر دیا۔ ذہن تھا کہ بار بار ماضی کی طرف لَوٹ رہا تھا، مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے ملاقاتیں ، ان کی ضیافتیں ، ان کی محبتیں اور اُن کی شفقتیں یاد آرہی تھیں ، وہ مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے، میں نے ان یادوں کو پھر سے دل میں سماتے ہوئے اس کام کی طرف توجہ دی اور اپنے اﷲ سے مدد کی التجا کی کہ یااﷲ! اگر تو نے اس کام کا پھر سے موقع فراہم کر دیا ہے تو، تو ہی تو فیق عطا فرما کہ اسے مکمل کر پاؤں ۔ اس دعا کے سہارے اس کام کو ابا جی رحمہ اللہ کی ہدایات کے مطابق شروع کر دیا، جو انھوں نے اس سے پہلے کتاب کے مطالعے کے سلسلے میں فرمائیں تھیں ۔ اس نازک اور مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور محض اﷲ کی توفیق سے کتاب کی پروف ریڈنگ شروع کر دی۔ پروف ریڈنگ کے دوران میں بڑے مشکل مراحل اور مقامات آئے، کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ چند سطروں سے زیادہ ایک وقت میں پڑھ نہ پایا، کچھ مقامات مجھے تشنہ لگے، کہیں محسوس ہوا کہ کچھ رہ گیا ہے، میں نے یہ سب کچھ نوٹ کر لیا اور کتاب کی پروف ریڈنگ مکمل کر کے محترم مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے ملنے لاہور روانہ ہوگیا۔ لاہور پہنچ کر سیدھا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں پہنچا۔ میں چونکہ بغیر اطلاع کے گیا تھا، محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ میرے اس اچانک آنے پر متحیر سے ہوئے۔ فرمانے لگے: خالد صاحب آج صبح صبح خیریت تو ہے؟ عرض کیا: جی ہاں ! بالکل خیریت ہے، ایک کام جو سالوں سے آپ کے ذمے تھا، اسی کو لے کر پھر حاضر ہوا ہوں ۔ فرمانے لگے: بیٹھیں تو سہی، کہیے کیا حال احوال ہیں ؟ عرض کیا: الحمد اللّٰہ آپ فرمائیں ۔۔۔ وہ لیٹے ہوئے تھے، میں نے کہا: لگتا ہے کچھ طبیعت ناساز ہے؟ فرمایا: کچھ دنوں
Flag Counter