Maktaba Wahhabi

291 - 924
حضرت ندوی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ہمارے محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ’’فقہائے ہند‘‘ تحریر کی ہے، فقہا کے حالات و واقعات کو جمع کر دیا ہے، ان سے پوچھو! کیا انھوں نے ان کی فقاہت بھی لکھی؟‘‘ فرمایا: ’’فقہا بہت ہیں ، فقاہت کم ہے۔‘‘ پھر دونوں صاحب بہت ہنسے اور میں بھی ان کے ساتھ شریک ہو گیا۔ ایک مرتبہ غالباً ۱۹۸۳ء کی بات ہے کہ راقم مفکرِ اسلام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی ملاقات کے لیے ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور حاضر ہوا۔ حسنِ اتفاق سے وہاں مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی موجود تھے، باتوں باتوں میں مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کہنے لگے کہ ’’مولانا! ہم تو بوڑھے ہو گئے ہیں ۔‘‘ مولانا ندوی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جناب! جس انسان میں فکر باقی ہے، وہ ہر حالت میں جوان ہے، لہٰذا آپ بوڑھے نہیں ، جوان ہیں ۔‘‘ مولانا نے مزید فرمایا: ’’جو قومیں فکر نہیں رکھتیں ، وہ کبھی زندہ نہیں رہتیں ۔‘‘ ہمارے ممدوح بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے زیادہ تر حصولِ علم مفکرِ اہلِ حدیث مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ سے حاصل کیا تھا، مولانا ان کو سفر و حضر میں ساتھ رکھتے تھے، انھوں نے مزید تعلیم کے لیے ان کو گوجرانوالہ میں بھیج دیا۔ وہاں انھوں نے حافظ محمد گوندلوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ سے انتہائی کتب پڑھیں ۔ ان کے علاوہ ان کے استاد شیخ الحدیث مولانا ثناء اللہ ہوشیار پوری رحمہ اللہ تھے، تعلیم کے بعد کچھ عرصہ ’’مرکز الاسلام لکھوکے‘‘ میں مدرس رہے۔ انھوں نے سیاسی زندگی کا آغاز ’’پرجا منڈل‘‘(پیپلز پارٹی، یا عوامی پارٹی )کے پلیٹ فارم سے کیا، جس کے صدر خواجہ عبدالرب(ریاست پٹیالہ)تھے۔ ریاست فرید کوٹ کے ’’پرجا منڈل‘‘ کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے۔ پہلے جنرل سیکرٹری قاضی عبیداللہ احرار رحمہ اللہ تھے پھر مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ انھوں نے تحریکِ آزادی میں پرجوش حصہ لیا، قید و بند سے بھی دوچار ہوئے اور اس تحریک کے دوران میں بڑے سیاست دانوں سے ملاقات کا موقع بھی ملا، جن میں مولانا ابو الکلام آزاد اور سیف الدین کچلو رحمہما اللہ نمایاں ہیں ۔ ملک تقسیم ہو گیا تو وہاں سے ہجرت کر کے قصور ٹھہرے، پھر کچھ عرصہ قیام کے بعد فیصل آباد(لائل پور)تشریف لے گئے اورچک نمبر ۵۳، گ۔ ب۔ ڈھیسیاں تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں مستقل ڈیرے ڈال دیے۔ اساتذہ کا احترام: حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ اپنے اساتذہ کرام کا نام بہت احترام اور محبت سے لیتے تھے۔ ایک دن ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور حاضر ہوا تو فرمانے لگے: ’’میرے ایک استاد جناب مولانا ثناء اللہ ہوشیار پوری رحمہ اللہ تھے، نہ جانے کہاں ہیں ، بہت شفیق استاد تھے۔ ملنے کو جی چاہتا ہے، بقول بھٹی صاحب رحمہ اللہ: ’’ایک دن جامعہ سلفیہ کے لائبریرین مولانا محمد اشرف جاوید میرے پاس اس وقت دفتر ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ آئے، وہ لائبریری کے لیے کچھ کتابیں خریدنا چاہتے تھے، ان سے باتوں کا سلسلہ چلا تو انھوں نے بتایا کہ مولانا ثناء اللہ ہوشیارپوری رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ میں فرائضِ تدریس انجام
Flag Counter