Maktaba Wahhabi

456 - 924
کے قائل ہیں تو اس کے صراحتاً معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ کسی دوسری قوم کے حقِ خود ارادیت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، وہ کسی وقت بھی کسی قوم کو لوٹ لینے اور اس کے ذرائع اختیار پر بہ جبر قابض ہو جانے کو نہ صرف یہ کہ جائز قرار دیتے ہیں ، بلکہ باعثِ اجر اور موجبِ ثواب سمجھتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ ہرگز اسلام کا تصورِ جہاد نہیں ، مسلمان اسے قطعاً جہاد قرار نہیں دیتے۔ بلاوجہ قتل و غارت، مار دھاڑ اور غصب و نہب کو جہاد کے نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کھلے بندوں انارکی اور بدنظمی ہے اور اسلام انتہائی متوازن مذہب ہے، اس کے ہر حکم میں سلجھاؤ، ہر امر میں اعتدال اور ہر معاملے میں توازن پایا جاتا ہے، وہ اپنے ماننے والوں کو اس قسم کی حرکتوں کی قطعی طورسے اجازت نہیں دے سکتا۔ بلاکسی دینی و اخلاقی معاملے کے اور بغیر کسی روحانی واسلامی ذمے داری کے محض مخالف سے ٹکرا جانے اور دشمن سے بھڑ جانے پر جہاد کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جہاد۔۔ بہت بڑی دینی قدر: جہاد ایک بہت بڑی دینی اور روحانی قدر ہے، جو ذہن کی صفائی اور خاص تربیت کے نتیجے میں بندۂ مومن کے دل میں کروٹ لیتی ہے۔یہ ایک متعین سانچا ہے جو قلبِ اطاعت گزار میں انقلاب و تغیر کی صحت مندانہ لہریں پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ غیر مسلموں کو شکوہ ہے کہ مسلمان جہاد کا نعرہ بلند کرتے ہیں ، لیکن ہمیں گلہ ہے کہ یہاں نظریہ جہاد کی تبلیغ و اشاعت کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں ۔ ٹیلی ویژن اور ڈش انٹینا نے مسلمانوں کی زندگی کو اتنا دلچسپ اور رنگین بنا دینے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور آئے دن کے نئے سے نئے فیشنوں نے ان کے طرزِ حیات کو اس طرح اپنی گرفت میں لینے کا تہیا کر لیا ہے کہ اس طرف ان کا دھیان ہی نہ جائے۔ پوری کوشش کے ساتھ مسلمانوں کو نغمہ و رقص کا خوگر بنایا جا رہا ہے، عیش و عشرت کے تمام لوازم کو ان کے ذہن و فکر کے ہر گوشے میں اتار دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اربابِ اختیار نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ گانا بجانا مسلمانوں کی زندگی کا لازمی جز بن جائے، تاکہ انھیں جہاد سے کوئی ذہنی اور قلبی مناسبت نہ رہے اور سخت کوشی اور جفا کشی کی وہ زندگی اختیار کرنے سے، جس کا جہاد تقاضا کرتا ہے، عملی طور پر مسلمان دستِ کش ہوجائیں ۔جب صورتِ حال یہ ہے تو جہادِ فی سبیل اللہ کا داعیہ اور راہِ خدا میں مال و جان پیش کرنے کا جذبہ کہاں باقی رہتا ہے؟! چار تصور: جب ہم جہاد کا لفظ بولتے یا سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں بیک وقت اس کے چار تصور اُبھرتے ہیں : اول: یہ نہایت ذمہ دارانہ سعی و عمل اور انتہائی مخلصانہ تگ و دو کا نام ہے۔ چھچھور پن، لاف زنی، بھنگڑا بازی اور ہلڑ بازی سے ہر گز اس کا کوئی علاقہ نہیں ۔ دوم: جہاد ایک خاص نظامِ فکر اور خاص طرزِ عمل کا متقاضی ہے، جس کی حفاظت و صیانت اتنی ضروری ہے کہ اگر اس کے لیے جان کی بازی بھی لگانا پڑ ے تو بلا تامل لگا دی جائے۔
Flag Counter