Maktaba Wahhabi

602 - 924
بھی شامل ہے۔ ۱۹۶۴ء میں قاسمی صاحب کو ان کے مجموعۂ کلام ’’دشتِ وفا‘‘ پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ۱۹۶۸ء میں انھیں حکومتِ پاکستان نے ادبِ فن میں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا۔ انھوں نے طویل عمر پائی اور ادب کی خدمت میں سرگرداں رہے۔ ۲۰۰۶ء میں ان کی وفات ہوگئی۔ مرحوم کمٹمنٹ کے آدمی تھے اور ان کا یہ کمٹمنٹ شعر و ادب اور ترقی پسند تحریک سے تھا، جسے انھوں نے تاحیات نبھایا۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ ان کی رحلت نہ صرف اردو زبان و ادب کا ایک بڑا نقصان بلکہ ایک مخصوص ادبی عہد کا اختتام بھی ہے۔ 6۔سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ(وفات: ۲۴؍ اپریل ۱۹۷۶ء): سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ ہمہ پہلو اور ہمہ جہت عالمِ دین تھے۔ سریع المطالعہ، ذہین، تصنیف و تالیف میں یگانہ، بیک وقت عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں کے ماہر۔ آپ خاندانِ غزنویہ کے نامور سپوت تھے۔ ۲۲؍ مئی ۱۹۲۷ء کو امر تسر میں مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ(مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے بانی صدر)کے گھر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مرحوم اپنے دادا مولانا عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور والد مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے صحیح جانشین تھے۔ انگریزی حکومت اور اس کے گماشتوں کے خلاف انھوں نے سیاسیات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مختلف سیاسی تحریکوں کے پلیٹ فارم سے نہایت ہی فعال کردار ادا کیا۔ اس میں انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۶۳ء کو وفات پائی۔ مولانا ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ نے امر تسر کے خزانہ گیٹ ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ ایم اے او کالج امر تسر سے بی۔ اے کیا۔ ۱۹۵۰ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے(عربی)کیا۔ پورے پنجاب میں اول پوزیشن رہی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ پنجاب یونیورسٹی ہی سے ایل ایل بی کیا۔ لیکن پیشہ وکالت اختیار کرنے کے بجائے تعلیم و تدریس کی راہ اپنائی، کیوں کہ یہ وہ راہ تھی جسے ان کے اسلاف نے بھی اختیار کیا تھا۔ جن معروف اور بہترین شہرت کے حامل اساتذۂ کرام سے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹیل کالج میں استفادہ کیا، ان میں پروفیسر محمد مراکشی، ڈاکٹر برکت علی قریشی، شیخ عنایت اللہ اور پروفیسر عبدالقیوم صاحبان کے نام آتے ہیں ۔ سید صاحب رحمہ اللہ نے دینی و علمی فنون جن جلیل القدر علمائے حدیث سے حاصل کیے، ان میں مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا عبدالرحیم(حسین خان والا)، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا محمد عبدہ، حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی، مولانا شریف اللہ خان اور پروفیسر غلام احمد حریری رحمہم اللہ شامل ہیں ۔ غزنوی صاحب رحمہ اللہ کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو میں خاص مہارت حاصل تھی۔ عربی اور فارسی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ ان کے بقول یہ ان کے اجداد کی زبانیں ہیں ۔ ۱۹۵۰ء میں وہ اسلامیہ کالج لاہور(سول لائن)میں عربی کے لیکچرار مقرر کیے گئے۔ اسی کالج میں عربی اور اسلامیات کے شعبوں کی سربراہی بھی ان کے پاس رہی۔ جدید عربی غزنوی صاحب رحمہ اللہ کا خاص موضوع تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں اورینٹیل کالج(لاہور)کے پرنسپل ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم نے انھین اپنے کالج میں عارضی مدت کے لیے جدید عربی کا لیکچرار مقرر کر دیا۔
Flag Counter