Maktaba Wahhabi

603 - 924
۱۹۶۴ء میں انھیں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے شعبہ علومِ اسلامیہ کی سربراہی کا منصب عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی میں انھون نے دعوتِ دین اور اسلامی تعلیمات کے احیا کے لیے کافی کام کیا۔ ستمبر ۱۹۷۵ء میں انھین اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ انھوں نے یونیورسٹی کی تعمیر و ترقی کے لیے بے حد تگ و دو کی۔ سید صاحب رحمہ اللہ متعدد دینی و علمی علوم و فنون سے مالا مال تھے۔ تحریر و نگارش کی طرف ان کا رجحان فطری تقاضا تھا۔ انھوں نے نہایت ہی اہم نوعیت کے رسائل تحریر کیے۔ جو یہ ہیں : اسلام اور آدابِ معاشرت(اردو، انگریزی)، ادب محبت کا پہلا قرینہ ہے، قربت کی راہیں ، اسلام میں گردشِ دولت(اُردو، انگریزی)، واقعہ کربلا، خطباتِ جہاد، حقیقتِ ذکرِ الٰہی، اس دنیا میں اللہ کا قانونِ جزا و سزا، قرآن کے صوری و معنوی محاسن، تاریخِ اسلام(عہد بنو اُمیہ و بنو عباس)، سورت محمد، سورۃ الفتح اور سورۃ الحجرات کی تفسیر و ترجمہ، تعلیم و تزکیہ، اسلامی ریاست کے چند ناگزیر تقاضے(اردو، انگریزی)، کتابتِ حدیث عہدِ نبوی میں ، عہدِ حاضر میں استاذ اور شاگرد کا رشتہ۔ تقریر و خطابت میں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ پُر اثر وعظ فرماتے، جس میں قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ اور عربی و فارسی اور اردو کے برمحل اشعار پڑھتے۔ موصوف گرامی عربی اور اردو کے بہترین شاعر بھی تھے۔ ان کا کچھ کلام اخبارات کی زینت بنا، جسے ادبی حلقوں میں بے حد پسند کیا گیا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ان کی شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں : ’’کسی سے مرعوب ہونا اور کسی کے سامنے جھکنا اُن کی خاندانی روایت اور ذاتی فطرت کے خلاف تھا۔ وہ وقار سے رہتے تھے اور اپنے مقام و مرتبے کو ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔ اصحابِ اقتدار کے پاس جانے سے احتراز کرتے تھے۔ ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ جس طرح اُردو اور پنجابی میں روانی سے بات کرتے تھے، اسی طرح عربی، فارسی اور انگریزی میں بے تکلفی اور روانی سے گفتگو کرتے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد سے بہت متاثر تھے اور ان کے انتہائی مداح…! مولانا کے الہلال، البلاغ اور تذکرہ کے صفحات کے صفحات انھیں زبانی یاد تھے۔ ’’غبارِ خاطر‘‘ کا بہت سا حصہ ان کے نوکِ زبان تھا۔ مولانا نے اپنی تصانیف میں عربی، فارسی اور اردو کے جو اشعار درج کیے ہیں ، ان میں سے بہت سے اشعار انھوں نے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیے تھے۔ مولانا کی عبارتیں وہ اپنی تقریروں میں بے تکلفی سے استعمال کرتے تھے، اور یہ ان کی ذہانت اور قوتِ حافظہ کا کمال تھا۔‘‘(صوفی عبداللہ رحمہ اللہ ، ص: ۲۸۷) مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر انھوں نے ہفت روزہ ’’توحید‘‘ نکالا، لیکن جلد ہی یہ اخبار بند ہوگیا۔ مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کی وفات(۱۶؍ دسمبر ۱۹۶۳ء)کے بعد انھیں خاندان کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ دار العلوم تقویۃ الاسلام(شیش محل روڈ)کی نگرانی بھی ان کے سپرد ہوئی۔ یہ دار العلوم ان کے بزرگوں کا قائم کردہ تھا، جسے انھوں نے تدریسی، علمی اور انتظامی اعتبار سے احسن انداز میں چلایا۔ سید صاحب رحمہ اللہ نے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کی
Flag Counter