Maktaba Wahhabi

496 - 924
ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ ذیل کے سوالات و جوابات جس جریدے سے لیے گئے ہیں ، وہیں آخر میں اس کا حوالہ بھی دے دیا گیا ہے۔ تاریخِ پیدایش اور ابتدائی خاندانی حالات: سوال: تاریخِ پیدایش اور خاندانی پسِ منظر سے آگاہ فرمائیں ؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: میری تاریخِ پیدائش ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء ہے۔ خاندانی تعلق کوٹ کپورہ(سابق)ریاست فرید کوٹ مشرقی پنجاب سے ہے، لیکن میرے ننھیال(سابق)ریاست پٹیالہ کے ایک قصبے ’’ہنڈایا‘‘ میں سکونت پذیر تھے۔ میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا اور اس زمانے میں پہلے بچے کی پیدایش سے کچھ عرصہ قبل ننھیال والے بیٹی کو اپنے ہاں لے جاتے تھے۔ میری والدہ کو بھی ان کے والد(ہمارے نانا حکیم محمد رمضان)وہاں لے گئے تھے، اس لیے میری پیدایش ننھیال میں ہوئی اور پرورش کی منزلیں اپنے ددھیال(کوٹ کپورہ)میں طے کیں ۔ خاندانی پسِ منظر خالص مذہبی تھا۔ میری پیدایش سے بھی پہلے ہمارے بزرگوں کی کوشش سے کوٹ کپورہ میں انجمن اصلاح المسلمین قائم کی گئی تھی، جس کا ہر سال سالانہ تبلیغی جلسہ بالعموم مارچ کے مہینے میں منعقد کیا جاتا تھا، جو تین دن جاری رہتا تھا۔ جلسے میں بہت سے علمائے کرام کو دعوتِ شرکت دی جاتی تھی اور وہ تشریف لاتے اور تقریریں کرتے تھے۔ ان میں سے جن حضرات کو میں نے دیکھا، وہ تھے: مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، حافظ محمد گوندلوی، سید محمد شریف گھڑیالوی، مولانا محمد علی لکھوی، حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عبدالمجید سوہدروی، مولانا احمد الدین گکھڑوی، مولانا محی الدین احمد قصوری، مولانا عبداللہ ثانی امرتسری، حافظ محمد حسین روپڑی رحمہم اللہ اور دیگر بہت سے حضرات۔ ان علمائے کرام کی تقریریں کوٹ کپورہ اور اس کے اردگرد کے دیہات و قصبات کے مسلمان تو سنتے ہی تھے، وہاں کے ہندو اور سکھ بھی بڑے غور سے ان کے وعظ سنتے اور پھر نہایت احترام سے ان کے ساتھ ملاقات کرتے۔ کوٹ کپورہ کے مسلمان مسلکاً اہلحدیث تھے اور وہاں بائیس مسجدیں تھیں ، جو اہلِ حدیث کی تھیں ۔ وہاں کا ماحول چونکہ مذہبی تھا اور میری پرورش اسی ماحول میں ہوئی تھی، اس لیے مجھ پر ہمیشہ مذہب کا غلبہ رہا، جسے میں اپنی خوشی نصیبی سمجھتا ہوں ۔ تعلیمی سرگرمیوں کی وضاحت: سوال: تعلیمی مراحل کے بارے میں کچھ بتائیں ؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: میں ۱۹۳۳ء میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس سے قبل اپنے دادا مرحوم سے قرآنِ مجید اور اُردو کی بعض کتابیں پڑھ چکا تھا۔ ۱۹۳۳ء میں کوٹ کپورہ کی انجمن اصلاح المسلمین کی دعوت پر وہاں خطیب اور مدرس کی حیثیت سے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ تشریف لے گئے تھے۔ دادا مرحوم نے مجھے دینیات کی تعلیم
Flag Counter