Maktaba Wahhabi

776 - 924
کتاب کسی علمی سوغات سے کم کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس لیے اصحابِ اہلِ علم و فضل اس کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کے علم و عمل میں برکت ڈالے اور انھیں سلامت رکھے۔ آمین 14۔مولانا عبدالرشید عراقی دینی، علمی، ادبی اور صحافتی حلقوں میں عراقی صاحب حفظہ اللہ نہ صرف معروف ہیں ، بلکہ ایک اونچا مقام رکھتے ہیں ۔ آپ کا شمار دورِ حاضر کے چند زود نویسوں میں ہوتا ہے۔ محدثینِ کرام، علمائے جماعت، ان کی حدیثی و علمی خدمات اور شروحِ احادیث کا تذکرہ آپ کا اولین مشغلہ ہے، جو ’’المرء مع أحب‘‘ کا پیش خیمہ ہے۔ ان شاء اللہ آپ کے قیمتی مقالات و سوانحی مضامین پچھلی نصف صدی سے مسلک اہلِ حدیث کے بیشتر مجلات و جرائد کی زینت بن رہے ہیں ۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘، ’’اہلِ حدیث‘‘، ’’صحیفۂ اہلِ حدیث‘‘، ’’تعلیم الاسلام‘‘، ’’المنبر‘‘، ’’القاسم‘‘، ’’ترجمان الحدیث‘‘، ’’تفہیم الاسلام‘‘ اور دیگر رسائل میں آپ کے سیکڑوں مضامین مطبوع ہیں ۔ عراقی صاحب حفظہ اللہ نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ بینک کی ملازمت میں گزارا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ ادبی اور تحریری سرگرمیاں بھی جاری رہیں ، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہیں ۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے خود کو لکھنے پڑھنے کے لیے ہی وقف کر دیا۔ اب تک پچاس سے زیادہ ان کی حدیث اور رجالِ حدیث کے متعلق کتب شائع ہو چکی ہیں ، جن میں سے تذکرہ بزرگانِ علوی سوہدرہ، برصغیر پاک و ہند میں اہلِ حدیث کی تفسیری و حدیثی خدمات، ادیانِ باطلہ کی تردید میں علمائے اہلِ حدیث کی خدمات، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ ، تذکرہ محدث روپڑی رحمہ اللہ ، کاروانِ حدیث، مقامِ حدیث، تذکرہ محدث وزیر آبادی رحمہ اللہ ، تذکرۂ اسلاف، اہلِ حدیث کے چار مراکز، غزنوی خاندان وغیرہ زیادہ مشہور ہیں ۔ ان کی تحریر میں قدیم روایات سے رشتہ مستحکم نظر آتا ہے۔ اسلوب اور طرزِ ادب میں بھی ان کے یہاں نمودِ سحر کا عمل بہ خوبی نظر آتا ہے۔ عراقی صاحب سوہدرہ(ضلع گوجرانوالہ)کی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے اساتذہ کرام میں مولانا علم الدین، مولانا عبدالمجید سوہدروی، مولانا حافظ محمدیوسف سوہدروی اور مولانا عبدالسلام ہزاروی رحمہم اللہ کے نام آتے ہیں ۔ علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے بعد تذکرہ و تاریخ نویسی کے حوالے سے عراقی صاحب کا نام لیا جاتا ہے۔ بلاشبہہ انھوں نے حدیث اور رجالِ حدیث کے موضوع پر قابلِ قدر وقیع کام کیا۔ اس وقت آپ کا قافلۂ حیات اکہتر(۷۱)برس سے گزر رہا ہے۔ صحت بھی کافی کمزور ہوگئی ہے۔ اس پیرانہ سالی میں بھی ان کا قلم مسلسل حرکت میں ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں سلامتی ایمان کے ساتھ عافیتِ صحت بھی عطا فرمائے، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ دینی و علمی ادب کے جواہر ریزے رقم کر سکیں اور آنے والی نسلیں بھی ان سے بھرپور استفادہ کرکے موصوف کے لیے توشہ آخرت کا سامان بنا دیں ۔ آمین
Flag Counter