Maktaba Wahhabi

695 - 924
تاریخ اہلِ حدیث کے سرد و گرم چشیدہ، بے شمار کتب کے مصنف، محقق، مترجم اور مولف مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ۱۰؍ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ بمطابق ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز منگل علی الصبح میو ہسپتال( لاہور)میں اپنی عمرِ عزیز کی تقریباً ۹۱ بہاریں گزار کر داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ آہ۔۔۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون ! مرحوم کا شمار حضرت مولانا محمدعطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے اولین شاگردوں میں ہوتا تھا۔ آپ ایک کہنہ مشق صحافی، مصنف کتبِ کثیرہ، ملکی و جماعتی حالات کے عینی شاہد اور پوری جماعت اہلِ حدیث و اکابر کے حالات و واقعات کو قلم بند کر کے محفوظ کرنے کے ماہر، تاریخ نویس اور خاکہ نویس تھے۔ موصوف ملک و بیرون ملک کے علمی حلقوں میں جانے پہچانے، معروف صحافی اور خوش خصال و مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان کے قلم سے ہزاروں صفحات پر جماعتی و ملکی تاریخ سے وابستہ تذکرے شائع ہوئے، جو ان کی یادگار کے طور پر ہمیشہ یاد رہیں گے۔ بڑے بڑے قلم کار اوربڑے بڑے مقالہ نگار علمی اور مقالہ نویسی کے سلسلے میں حاضری دیتے تھے۔ موصوف نہ صرف ان کی راہنمائی کرتے، بلکہ ان کی تواضع بھی فرماتے۔ راہنمائی کے لیے مولانا رحمہ اللہ انتہائی مشفق اور مہمان نواز تھے۔ فیض اٹھانے والوں کو کھانا، چائے وغیرہ سے بھی نوازتے۔ ان کے مزاج میں خشکی کا عنصر نہ تھا۔ ہمیشہ خوش رکھنے کی باتیں کرتے تھے۔ موصوف سانس اور دمہ کے مریض تھے۔ ۲۰؍ دسمبر کی شام طبیعت خراب ہوئی تو ان کے بھائی سعید احمد بھٹی انھیں میو ہسپتال لے گئے۔ وہاں طبیعت سنبھلنے کے بجائے خراب ہی رہی اور پھر اپنے رب کے پیغام پر سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ ( ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور۔ جلد: ۶۷۔ شمارہ: ۵۰۔ ۲۵ تا ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۵ء ۱۲؍ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ) 4۔ہفت روزہ ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ لاہور: آہ! اک چراغ اور گل ہوا مورخِ اہلِ حدیث، مصنف کتبِ کثیرہ مولانا محمداسحاق بھٹی صاحب قضائے الٰہی سے وفات پا گئے ہیں ۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون! مرحوم بھٹی صاحب بہارِ قلم کے عظیم شاہکار تھے۔ آپ نے کئی عربی کتابوں کے اردو تراجم کیے اور کئی شاندار کتب تالیف و تصنیف کیں ۔ جب اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرتے ہوئے مختلف شخصیات کے حالات و واقعات اور خاکے لکھنے شروع کرتے تو اپنی تحریروں میں قاری کو اس طرح دہلی، بنارس، کلکتہ، لاہور اور پنجاب کے علاقوں کی سیر کراتے، جیسے کوئی انگلی پکڑ کر لیے پھرتا ہو۔ ان کے تخلیق کردہ خاکے بلاشبہہ اُردو ادب کا سرمایہ قرار دیے جاسکتے ہیں ۔ مرحوم کی گفتگو بہت سادہ اسلوب عام فہم اور دل نشیں ہوتی تھی۔ ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت کی وفات حسرت آیات ’’مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَمِ‘‘ کی مانند ہوتی ہے۔ بھٹی صاحب کی وفات سے جماعت اہلِ حدیث کو بہت صدمہ پہنچا ہے، جسے برسوں تک بھلایا نہیں جائے گا۔ ( ہفت روزہ ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ لاہور۔ جلد: ۶۰۔ شمارہ: ۱۱۔ ۲۵ تا ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۵ء ۱۳؍ ربیع الاول ۱۴۳۷ھ)
Flag Counter