Maktaba Wahhabi

174 - 924
اور ہمارے کلچر کا حصہ تھا، اپنے بچوں کو اپنے ساتھ نمازِ فجر کے لیے مسجد میں لے جانا اور پھر بچوں کا سکول جانے سے پہلے مسجد میں قرآنِ مجید اور دیگر ابتدائی دینی کتب پڑھنا، سکول سے واپسی پر شام کو مسجد میں مسنون دعائیں اور دینی آداب سیکھنا اور رات کو اپنے دادا، دادی یا نانا، نانی کی صحبت میں انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے واقعات سن کر دینی رغبت حاصل کرنا، ہمارے کلچر کا حصہ تھا۔ اب تو زندگی مشینی سی ہو گئی ہے۔ ہمارے بڑوں کو دفاتر سے اور بچوں کو سکول اور ٹیوشن ہی سے فرصت نہیں اور اگر کوئی وقت بچ گیا تو وہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل پر نیٹ، فیس بک، واٹس اپ، ٹویٹر اور چیٹنگ کی نذر ہو جاتا ہے۔ بڑوں کو چھوٹوں کی رفاقت و معاونت کی ضرورت نہیں اور چھوٹوں کو بڑوں کی صحبت و تربیت کی چنداں ضرورت نہیں رہی، ایسے ماحول میں جو قوم تیار ہوگی، اس کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ نمازِ فجر سے پہلے بیدار ہوتے، حسبِ توفیق نوافل ادا کرنے کے ساتھ کم از کم نصف پارہ قرآنِ مجید کی تلاوت کے بعد مسجد میں تشریف لے جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ اگر کسی وجہ سے تلاوت نہ کر سکتے تو سارا دن اندیشہ رہتا، ہر نماز کے بعد دس مرتبہ ﴿ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي* وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي * وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي * يَفْقَهُوا قَوْلِي ﴾ اور دس مرتبہ ’’لا حول ولا قوۃ إلا بااللّٰه العلي العظیم‘‘ اور دس مرتبہ ’’رب زدني علما‘‘ پڑھتے۔ ننگے سر نماز پڑھنا جائز سمجھتے، لیکن معمول کو پسند نہیں کرتے تھے۔ نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا لازم نہیں سمجھتے تھے، مگر وہ اکثر یہ عمل کرتے تھے، خندہ پیشانی اور خوش گوئی انھیں بہت محبوب تھی۔ ۳۔ قلمی خوراک: مولانا بھٹی رحمہ اللہ جنھیں علمی دنیا ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کے نام سے جانتی ہے، جسمانی اور روحانی خوراک کے ساتھ قلمی خوراک بھی ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکی تھی۔ انھوں نے خاکہ نویسی سے لے کر تحقیقی مضامین تک زندگی بھر تحریر کے تمام میدانوں میں شہسواری کی اور ایک ماہر اور مشاق شہسوار ثابت ہوئے۔ ان کی تحریر کا انداز بڑا سادہ مگر دلکش تھا۔ ان کی تحریر کو پڑھتے ہوئے آدمی جس منظر کو محسوس کرتا ہے، وہ ساتھ ساتھ خود کو بھی اس میں شامل سمجھتا ہے اور یہ ان کی تحریر کی بڑی کمال کی خوبی ہے۔ محبت سے جی بھر کے لکھا۔ وہ اپنی مجلسوں میں فرمایا کرتے تھے، ہم نے شخصیت پرستی سے پرہیز کرتے کرتے شخصیت فراموشی شروع کر دی ہے، جو مناسب رویہ نہیں ہے۔ انھوں نے قومی سطح کی نمایاں شخصیات کے ساتھ گمشدہ اور فراموش کردہ شخصیات پر بھی لکھا اور اس انداز میں لکھا کہ انھیں تاریخی صفحات میں زندہ کر دیا۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ لکھنا ان کا فعل و شغل نہیں ، بلکہ ان کی خوراک اور غذا بن چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں طویل العمری کے باوجود صحت و تندرستی، بصارت و بینائی، بصیرت و شناوری، خندہ پیشانی و خوش گوئی اور کمال کےحافظے سے نوازا تھا، ان خوبیوں کے ساتھ تادمِ واپسیں چاق چوبند بھی تھے۔ آخری ایام تک قلمی خوراک سے بہرہ ور ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی علمی باقیات الصالحات کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین۔
Flag Counter