Maktaba Wahhabi

65 - 924
جن کا میں نہ اس وقت مستحق تھا اور نہ اب ہوں ، ان کے حسنِ ظن کا اللہ تعالیٰ انھیں اجرِ جزیل عطا فرمائے۔ آمین بہر آئینہ وہ مراسم اور تعلقات اخوت و محبت کے استوار کرنے اور اسے آخر وقت تک استوار رکھنے کے فن میں یکتا تھے، وہ اخلاص، انکسار، سادگی، تہذیب، شرافت اور وضع داری کا پیکر تھے، ان تمام اوصافِ حسنہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنے عہد کے ایک بہت بڑے صحافی، ادیب اور مصنف تھے، وہ صاحبِ طرز اور مخصوص اسلوبِ نگارش کے حامل قلمکار تھے۔ سیرت و سوانح اور خاکہ نگاری ان کا خاص میدان تھا، شخصیات کے خاکے انھوں نے اس سادگی، پرکاری اور مہارت کے ساتھ لکھے ہیں کہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان شخصیات کو اپنی آنکھوں سے چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے اور ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ تجربات کا تنوع، مشاہدات کی گہرائی، اظہار کی قدرت، اسلوب کی ندرت، مطالعے کی وسعت، بے پناہ قوتِ یادداشت اور استحضار ان کے خاکوں کے نمایاں امتیازات ہیں ۔ قوتِ یادداشت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک جگہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے پہلے ناظمِ اعلیٰ پروفیسر عبدالقیوم رحمہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پروفیسر صاحب تو یہ بھول گئے تھے، لیکن مجھے آج سے ساٹھ برس قبل کا یہ واقعہ اس کی تمام جزئیات کے ساتھ یاد ہے۔‘‘(گزر گئی گزران، ص: ۲۰۴) سیرت و سوانح اور خاکوں پر مشتمل اپنی تحریروں میں وہ چھوٹی چھوٹی جزئیات تک بیان کرتے ہیں ، انھیں پڑھ کر بسا اوقات خیال آتا تھا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا شاید مشاہدات و تجربات پر مشتمل اپنی یادداشتوں کو ڈائری وغیرہ کی صورت میں لکھنے کا معمول ہے، جس کی مدد سے وہ خاکے مرتب کرتے ہیں ، لیکن ان کی کتابوں سے مذکورہ بالا اقتباس کی طرح کئی اشارات مل جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے پناہ قوتِ حفظ سے سرفراز فرمایا ہوا تھا۔ ہم اپنے اسلافِ کرام کے تصنیفی و تالیفی کارہائے نمایاں کے بارے میں پڑھتے ہوئے حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتے تھے کہ انھوں نے اتنا کام کیسے کر لیا، مثلاً: جب امام طبری رحمہ اللہ کے بارے میں پڑھا کہ انھوں نے اتنی کتابیں تصنیف کیں کہ امام رحمہ اللہ کی زندگی کے دن شمار کیے گئے تو یومیہ تصنیف کا اوسط چودہ صفحات نکلا، انھوں نے تیس ہزار اوراق پر مشتمل تاریخ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کے تصنیفی سرمائے پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ فقہ، اصول، حدیث، ملل و نحل، سیرت، تاریخ اور انساب میں انھوں نے تقریباً 400کتابیں لکھی ہیں ، جن کے صفحات کا مجموعہ 80,000 ہے اور امام رحمہ اللہ کا طرزِ تحریر اتنا سخت اور تند و تیز ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ حجاج کی تلوار اور ابن حزم رحمہ اللہ کا قلم ایک ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اصول، عقائد، فقہ، تفسیر اور فتاوی سے متعلق تقریباً تین سو کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتابوں کے صفحات اور ان کی زندگی کے ایام گنے گئے تو 72صفحات یومیہ بنے۔ وہ لکھنے کے لیے جب قلمیں بناتے تو ان کے تراشوں کو مکان کے ایک کونے میں جمع کرتے
Flag Counter