Maktaba Wahhabi

611 - 924
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کے خطوط ’’غبارِ خاطر‘‘ اور ’’کاروانِ خیال‘‘ خود اُن کی زندگی میں متعدد بار شائع ہوئے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اپنے اس معاصر بزرگ ہستی کے متعلق لکھتے ہیں : ’’تقریر و تحریرمیں پورے ہندوستان میں کوئی ان کا حریف نہ تھا۔ علم وفضل میں بھی وہ اونچے مقام پر فائز تھے اور سیاست میں بھی ان کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ ان کی وفات کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں ان کے بارے میں بے شمار کتابیں چھپی ہیں اور روز بروز چھپ رہی ہیں ۔ ان کے افکار و خیالات اب نکھر کر لوگوں کے سامنے آرہے ہیں اور لوگ نہایت دلچسپی سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ برصغیر میں جتنا کچھ ان کے بارے میں لکھا گیا ہے، کسی مذہبی اور سیاسی راہنما کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔‘‘ مزید آگے لکھتے ہیں : ’’ان کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کے اہلِ قلم نے بے حد معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔ ہر مصنف اور ہر مضمون نگار کا اپنا اپنا نگارش اور اسلوبِ تحقیق ہے۔ کسی نے ان کی تفسیرکو موضوع بنایا اور ان کے فہمِ قرآن کی وضاحت کی۔ کسی نے ان کی عام فضیلت علمی کو اُجاگر کیا، کسی نے ان کی ادبی حیثیت کو نمایاں کرنے کی سعی کی، کسی نے ان کی صحافت کے مختلف پہلوؤں کو منقح کیا، کسی نے ان کی ذہانت اور معاملہ فہمی کو ہدفِ بحث بنایا، کسی نے ان کے عزمِ را سخ اور تحمل و بردباری کے واقعات بیان کیے، کسی نے ان کے سیاسی کارناموں اور برصغیر کی آزادی کے لیے ان کی بے پناہ تگ و تاز کی صراحت کی۔ کسی نے ان کی ان خدمات کا تذکرہ کیا جو انھوں نے آزادی کے بعدسر انجام دیں اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ان کی مساعی کا خاص طور سے ذکر کیا، کسی نے ان کی اس جد و جہد کا جائزہ لیا، جو تقسیم برصغیر کے بعد انھوں نے مسلمانوں کے مختلف تدریسی اور تصنیفی اداروں کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے کی۔ مثلاً: علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ دہلی، مدرسہ عالیہ کلکتہ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد(دکن)رام پور کی رضا لائبریری، دارالمصنفین اعظم گڑھ اور دیگر بہت سے اداروں کے تحفظ و استحکام کے لیے انھوں نے جو کوششیں کیں ، وہ دوسرا کوئی شخص نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی تفصیلات ان کتابوں میں مرقوم ہیں ،جو اُن کی وفات کے بعد ضبطِ تحریر میں آئیں ۔‘‘(بزم ارجمنداں ، ص: ۵۵، ۹۳) تقسیمِ ہندوستان سے قبل جو عبوری حکومت قائم ہوئی تھی، مولانا مرحوم اس میں وزیر تعلیم مقرر کیے گئے ۔یہ منصب انھوں نے ۱۵؍ جنوری ۱۹۴۷ء کو سنبھالا تھا۔ اس سے چند ماہ بعد ہندوستان بھر میں فسادات کا ہولناک سلسلہ شروع ہو گیا۔ مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کو جو خطرات لاحق تھے، مولانا رحمہ اللہ نے ان کی حفاظت کے لیے ریاستوں کے مہاراجوں سے رابطہ کیا۔ انھوں نے یقین دلایا کہ مسلمانوں کو ہر ممکن تحفظ دینے کی کوشش کی جائے گی، لیکن
Flag Counter