Maktaba Wahhabi

89 - 924
بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت کی تشکیل میں مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا محمد اسماعیل سلفی کی تربیت و سر پرستی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ وغیرہ سے نیاز مندانہ تعلقِ خاطر وغیرہ عناصر کا بنیادی کردار ہے۔ آزادیِ برصغیر سے قبل اپنے سیاسی رفیق گیانی ذیل سنگھ(سابق صدر جمہوریۂ ہند)اور علاقے کے دیگر رفقا کے ساتھ انقلابی سفر کا آغاز ہوا اور معاملہ جیل کی ہوا خوری تک بھی پہنچا۔ ’’جمعیت اہلِ حدیث‘‘ اور ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘(لاہور)سے وابستگی نے برصغیر کے سر بر آوردہ علما و زعما اور ادبا اور شعرا سے ملاقات و تعلقات کا راستہ ہموار کیا اور مختلف مکاتبِ فکر اور میدان ہائے عمل کے ماہرین سے استفادہ کا موقع ملا، لیکن اپنی تحریر میں کسی کی پیروی نہ کر کے خود ایک صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز بن کر اُبھرے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تحریروں میں نفرت کا عنصر ناپید اور محبت و اُلفت کی فراوانی ہے ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘۔ محترمہ فوزیہ سحر ملک(شعبۂ اردو، گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین۔ فیصل آباد)اپنے(ایم، فل)کے تحقیقی مقالہ ’’مولانا اسحاق بھٹی کی خاکہ نگاری: فنی اور تنقیدی جائزہ‘‘ میں تنقید کے موقع پر بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے سحرِ جلال سے مسحور ہو کر فرماتی ہیں کہ ’’وہ مسلکاً اہلِ حدیث ہیں ، لیکن دوسروں کے بارے میں ان کے یہاں تعصّب نہیں ۔‘‘ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے کسی بے تکلف اور ظریف دوست نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ’’طریقۂ محبتیہ‘‘ قائم کرکے لوگوں سے اس پر بیعت لیں تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بھی اسی انداز میں فرمایا کہ ’’اصلاح کا کام اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے، لیکن گھر میں سب کو معلوم ہے کہ میں کتنے پانی میں ہوں ؟‘‘ اپنے عقیدہ و منہج کی پاسبانی اور اس سلسلے میں اپنے اطمینان کا اظہار اور معاشرتی اقدار و روایات کی پاسداری اور اُن کی پامالی پر مصلحانہ تبصرے جا بجا ان کی تحریروں کی زینت ہیں ۔ ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کے فریضے کو ادا کرنا ایک مصنف و محرر پر واجب ہے، بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے یہ فریضہ جریدۂ ’’الاعتصام‘‘(لاہور)کی ادارت کے زمانے میں بہ خوبی انجام دیا ہے۔ عقائدی، معاشرتی، تحریکی اور سیاسی مسائل پر بڑی قا بلیت کے ساتھ جراَت مندانہ اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ اپنے علم کے مطابق ایک مسئلہ(اور اس کے لوازمات)کے علاوہ انھیں کہیں سپر ڈالتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کشفِ قبور و صدور کے متعلق اپنے ایک ’’شذرہ‘‘ کے بارے میں اپنے سرپرست مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کی اس توجیہ پر کہ ’’اگر فلاں کو کشف ہوتا ہے تو آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے؟‘‘ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ حالاں کہ ان کے شذرے کا موقف بالکل صحیح تھا اور آج بھی ہے اور رہے گا، کیوں کہ عقائدی امور میں تغیر کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ورنہ کشفِ قبور و صدور کے دعوے کے سامنے عقیدۂ ایمان بالغیب ہی متاثر ہو کر رہ جائے گا، جس کی توضیح و تائید کے لیے ہمارے اسلاف نے برصغیر میں ہر طرح کی قربانیاں پیش کی ہیں ، جن پر ہم آج جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں غریقِ رحمت فرمائے۔ آمین
Flag Counter