Maktaba Wahhabi

549 - 924
کو بڑی حد تک آپ کی بلند پایہ علمی تصانیف نے پُر کر دیا ہے۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں آپ کی علمی خدمات کو ہماری جماعت نے بہت زیادہ نہیں سراہا، حالاں کہ اس دور کا ہر کام اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے اور اس میں آپ نے ہر موقعے پر مسلکِ حقہ کی ترجمانی کی ہے۔ لیکن یہ اپنی جماعت کی بدقسمتی ہے کہ وہ بھی حزبیت اور گروہ بندی کا شکار رہی ہے، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس تعصب نے جماعت کو کئی علمی شخصیات کی خدمات سے محروم کر دیا اور وہ اپنے افراد سے کٹ کر رہ گئیں ۔ آج جو مختلف موضوعات پر علمی کتابوں کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ ابھی حال ہی میں مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی ’’اساسیاتِ اسلام‘‘ مطالعہ میں آئی۔ کیا گراں مایہ کتاب ہے۔ بعض مسائل کو کتنے اچھوتے انداز میں انھوں نے حل کیا ہے، طبیعت خوش ہوگئی۔ میں نے اس کے دو مضامین ’’نداء الصفا‘‘ میں نقل کیے اور قارئین نے ان کو خوب سراہا۔ دہلی کے ایک دوست ’’سراج البیان‘‘ شائع کرنا چاہتے ہیں ، انھوں نے شاید آپ سے مقدمہ بھی لکھوایا ہے، مجھے بھی انھوں نے حکم دیا ہے کہ اس کی تصحیح میں معاونت کروں ۔یہ میرے لیے سعادت کی بات ہوگی۔ دیکھئے کب اس کی اشاعت عمل میں آپاتی ہے۔[1] آپ نے اپنے گذشتہ خط میں تحریر فرمایا تھا کہ جماعت اہلِ حدیث کے تین ادبا عبدالعزیز میمن، محمد سورتی اور عبدالمجید الحریری پر بھی آپ ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں ۔ اس تعلق سے ایک کتاب پیشِ خدمت ہے۔ علامہ عبدالعزیز میمنی پر ایک سیمینار علی گڑھ میں ہوا تھا، اس کے مقالات کا یہ مجموعہ ہے۔ امید ہے کہ یہ آپ کے کام کا ہوگا۔ محمد سورتی کا انتقال علی گڑھ میں ہوا۔ ان کے ایک بیٹے احمد سورتی علی گڑھ میں ہیں ۔ ہم لوگوں سے اچھے روابط ہیں ۔ کبھی کبھی ہمارے ادارے میں تشریف لاتے ہیں ۔ کچھ باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ زیادہ کچھ نہیں بتاتے۔ حدیث کے متعلق بھی ان کے افکار و نظریات درست نہیں ہیں ۔ علی گڑھ میں ان کے تعلقات مارکسی نظریات کے حامل افراد، جماعتِ اسلامی اور فراہی فکر کے حاملین سے رہے ہیں ۔ اس لیے اعتدال باقی نہیں رہ پایا ہے۔ محمد سورتی کے جنازے میں مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی موجود تھے اور انھوں نے اس موقعے پر اعلان کیا تھا کہ جب تک بیوہ عدت میں ہیں ، ان کے مکان کا کرایہ میں ادا کروں گا۔ اور کئی ماہ کا واجب کرایہ بھی انھوں نے ادا کیا تھا۔[2] اس وقت ان کے بیٹے احمد سورتی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ ایک بزرگ تھے، جو اب آخرت کو سدھار چکے ہیں ، وہ کچھ باتیں سورتی صاحب کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ محمد اسماعیل گودھروی کی کتاب ’’ولی اللہ‘‘ پر
Flag Counter