Maktaba Wahhabi

52 - 924
اس کا حق ادا کر دیتے تھے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ اب کوئی شخص ان کاہم پلہ نظر نہیں آتا۔ مولانا مرحوم کی تصانیف کی فہرست بڑی طویل ہے۔ یہاں کچھ تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ابن الندیم بغدادی کی عربی کتاب ’’الفہرست‘‘ کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ یہ کتاب رجال و تاریخ کی بڑی اہم کتاب ہے جو ۹۰۰ سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ’’فقہائے ہند‘‘ دس جلدوں میں ہے۔ اس میں پہلی صدی سے لے کر تیرھویں صدی ہجری تک برصغیر کے ہر مسلک کے علمائے کرام اور فقہائے عظام کے حالات قلم بند کیے گئے ہیں ۔ یہ دو کتابیں ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی کے دور میں لکھی گئیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد نقوشِ عظمتِ رفتہ، بزمِ ارجمنداں ، کاروانِ سلف، قافلہ حدیث، صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ، تذکرہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ، ہفتِ اقلم، برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد(صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے حالات)چمنستانِ حدیث، قصوری خاندان اور دیگر متعدد کتابیں ان کے خامہ عنبر فشاں کی شاہکار ہیں ۔ ہمارے اسلاف نے مسلک اہلِ حدیث کی تبلیغ و اشاعت میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ، ان کتابوں میں انھیں بڑے خوبصورت پیرائے میں لوگوں کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ پھر بہت سے گمنام علمائے کرام کے حالات اور خدمات پر قلم اٹھا کر انھیں تاریخ میں زندہ کر دیا ہے۔ مولانا مرحوم کی تحریروں میں بلا کی روانی، عظمتِ الفاظ، اسلوب میں دلکشی اور اندازِ بیان میں شگفتگی موجود ہے۔ جناب پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ نے ان کی کتاب ’’قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ‘‘کے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’’ان کا قلم شستہ اور پیرایہ شگفتہ ہے۔ سادگی میں پرکاری کے نقوش ان کی تحریر کا خاصا ہے۔ انھوں نے نصف صدی تک جو علمی جواہر پیدا کیے ہیں ، ان میں ابو الکلام رحمہ اللہ کی نثری بلاغت، شبلی رحمہ اللہ کی مورخانہ بصیرت، سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا اسلوبِ تحقیق، مولانا مودودی رحمہ اللہ کا دعوتی انداز، رشید احمد صدیقی رحمہ اللہ کی سی شگفتہ نگاری، مولوی عبدالحق رحمہ اللہ کی سی سادہ بیانی، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی جامعیت، مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کا حکیمانہ اسلوب، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی سادگی اور کتاب دوستی اور علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی طلاقت لسانی کی جھلکیاں ان کی تحریروں کے مختلف صفحات پر نمایاں دکھائی دیتی ہیں ۔‘‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ علمی دنیا میں ایک قد آور، پرکشش اور عہد ساز شخصیت تھے۔ وہ حق اور اہلِ حق کے ساتھی تھے۔ مرحوم بڑے خوش اخلاق، متواضع، منکسر المزاج، خوش فکر، خندہ رو، شگفتہ کلام، ملنسار اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے۔ ان سے تعلق رکھنے والا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میں ہی ان کے زیادہ قریب ہوں ۔ وہ حسد و بغض سے نفور اور خود ستائی سے کوسوں دور تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ موت کے چنگل نے ہم سے ہمارے اس گنج گراں مایہ کو ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ ہمارے پاس اب ان کی محبتوں کی خوشبو، اخلاص کی مہک، اخلاقِ کریمانہ اور دینی خدمات و حسنات کی حسین یادیں باقی رہ گئی ہیں ۔ ان کی وفات کے بعد مجھے یہ شدت سے احساس ہوا کہ ان کی ذات
Flag Counter