Maktaba Wahhabi

137 - 924
انتہا تھی کہ اس دن بھی پرانی کتابوں کے جمعہ بازارمیں اپنی شمولیت سے پیچھے نہ رہے۔ مکرمی بھٹی صاحب اور راقم السطور ان کی فطرتِ ثانیہ سے آگاہ تھے، لہٰذا ہم دونوں گھر کے بجائے سیدھے بھوانہ بازار(فیصل آباد)پہنچے اور جناب علی ارشد صاحب رحمہ اللہ حسبِ معمول وہاں موجود تھے۔ وہاں سے فراغت پر ہم تینوں ان کے گھر چلے آئے۔ جناب علی ارشد صاحب رحمہ اللہ نے دلی خواہش کا اظہار کیا کہ ’’بھٹی صاحب! بیٹی کا نکاح آپ نے پڑھانا ہے۔‘‘ جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ شریف آدمی تھے۔ نامور ادیب اور لکھاری ضرور تھے، لیکن خطیب اور واعظ بالکل نہ تھے۔ درس اور وعظ، خطبہ اور تقریر سے گریزاں ہی رہتے تھے۔ لیکن یہاں انکار کی گنجایش نہ تھی۔ بظاہر تجربہ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ مجھے فرمانے لگے: ڈاکٹر صاحب! آپ نے خطبہ نکاح کے وقت میرے ساتھ بیٹھنا ہے اور ضرورت پڑنے پہ میری مدد کرنی ہے، اور واقعتا دورانِ خطبہ ضرورت پڑ گئی۔ آیاتِ مسنونہ کی تلاوت میں ذہول ہو گیا، جبکہ تاریخی واقعات خواہ دہائیوں پرانے ہوتے، کبھی نسیان کا شکار نہ ہوتے۔ ایک کی عادت نہ تھی، دوسرے کی ہر گھڑی لگن تھی۔ لگن و شوق حافظے کی اکسیر ہیں ۔ راہ وارِ قلم کی مہمیز ہیں اور ان دونوں کا وافر حصہ آپ کے لیے خاص عطیہ باری تعالیٰ تھا۔ تحریر اور گفتگو میں سادگی اور مزاج میں سادگی کی طرح جناب بھٹی صاحب کی شخصیت بھی سادگی کا مظہر و مرقع تھی۔ لباس سادہ لیکن صاف ستھرا پہنتے تھے۔ کھانے کو آخری کھانا سمجھ کر کھانے کے عادی نہ تھے۔ حسبِ عمر حسبِ ضرورت جینے کے لیے کھانے کے عادی تھے نہ کہ کھانے کے لیے جیتے تھے۔ البتہ عمدہ چائے کے رسیا تھے اور پھر جوابِ چائے، یعنی پیشاب کا معاملہ در پیش رہتا تھا۔ اپنے عقیدت مندوں کی خوشی غمی میں شریک ہونا ان کے شخصی تعلقات کا خاصا تھا۔ تعلقات کے دوام کے لیے احباب کے ہاں آمدو رفت کی خوئے خوب کے خوگر تھے۔ نامور لکھاری جناب محمد رمضان یوسف سلفی صاحب فیصل آبادی کا ولیمہ پروگرام ۳؍ اپریل ۲۰۰۰ء کو طے تھا۔ مکرمی بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے شرفِ آمد سے نوازا اور لذتِ کام و دہن کو اپنی شگفتہ بیانی سے دو آتشہ کر دیا۔ بعد ازاں میرے چچا مرحوم حافظ محمد سلیمان(متوفی: ۲۰۰۸ء)کے ہاں ۵۶۔ سی سمن آباد تشریف آوری ہوئی اور وہاں سے چائے پی کر جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ ، پروفیسر ڈاکٹر محمد دین قاسمی حفظہ اللہ ، راقم السطور ہمراہ علی ارشد صاحب رحمہ اللہ ان کی کار پر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن پہنچے، وہاں سے اوڈانوالہ رات کا کھانا لائق صد احترام عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ(متوفی: ۸؍ مارچ ۲۰۱۱ء)کے ہاں کھایا۔ بعد ازاں واپس فیصل آباد علی ارشد صاحب رحمہ اللہ کے ہاں رات بسر کی۔ یہ تفصیل جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تعلق داری نبھانے کی روایت اور جوان ہمتی کی مثال پیش کرنے کی غرض سے زیرِ قلم لائی گئی ہے، ورنہ عام طور پر اہلِ قلم انتہائی نازک مزاج ہوتے ہیں یا مظاہرہ تو ضرور کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جناب بھٹی صاحب سخت کوش اور کھلے ڈلے آدمی تھے۔ اس قدر کھلے ڈلے کہ انڈیا کے سابق صدر ذیل سنگھ
Flag Counter