Maktaba Wahhabi

138 - 924
گیانی سے بھی یارانہ تھا اور گیانی صاحب نے اپنے دورِ صدارت میں آپ کو انڈیا آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ دوسری طرف مولانا ابو الکلام آزاد(متوفی: ۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء)سے بھی تعلقِ خاطر تھا اور ان سے بھی شرفِ زیارت و لقا رکھتے تھے۔ ’’ہفت اقلیم‘‘، ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ اور ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ تک یہ رنگ آپ کی تحریر میں غالب رہا، بعد ازاں ’’کل شییٔ یرجع إلی أصلہ‘‘ کے مصداق آپ پر آپ کی اہلِ حدیثی غالب آگئی اور پھر ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد‘‘، ’’قصوری خاندان‘‘، ’’کاروانِ سلف‘‘، ’’قافلۂ حدیث‘‘، ’’دبستانِ حدیث‘‘، ’’چمنستانِ حدیث‘‘، ’’برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن‘‘ جیسی کئی ایک کتابیں اجتماعی طور پر اور ’’میاں عبدالعزیز مالواڈہ‘‘، ’’میاں فضل حق‘‘، ’’قاضی محمد سلیمان منصورپوری‘‘، ’’صوفی محمد عبداللہ‘‘، ’’مولانا غلام رسول قلعوی‘‘، ’’مولانا احمد دین گکھڑوی‘‘، ’’مولانا محی الدین لکھوی رحمہم اللہ ‘‘ جیسی کئی ایک کتابیں انفرادی طور پر خاص اہلِ حدیث شخصیات کے کارہائے نمایاں کو نمایاں کرنے کی غرض سے سپردِ قلم کیں اور ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کہلائے۔ جماعت اہلِ حدیث نے آپ کی قلمی خدمات کا قلبی تشکر کے ساتھ زبانی طور پر ہر جگہ اظہار و اقرار کیا۔ اہلِ قلم نے تحریری طور پر مختلف رسائل و جرائد میں آپ کی تحریری خدمات کو سراہا اور اربابِ جامعہ سلفیہ فیصل آباد نے مالی طور پر ایک لاکھ روپے بطورِ خراجِ عقیدت پیش کیے۔ یوں جماعتی طور پر دامے درمے سختے قدمے آپ کی عظمت کو سلام کرنے کا حق ادا کیا۔ راقم الحروف نے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے دلی عقیدت و ارادت کو اپنے مقالہ پی ایچ ڈی کے پہلے حوالے کے طور پر نبھایا۔ اپنے مقالہ ڈاکٹریٹ بزبان ترکی ’’پاک و ہند کی خدماتِ حدیث۔ شاہ ولی اللہ سے لے کر ۱۹۹۴ء تک‘‘(انقرہ یونیورسٹی انقرہ، ترکی، ۱۹۹۴ءء)میں پہلا تحقیقی حوالہ جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی کتاب ’’برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش‘‘(طبع ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور، ۱۹۹۰ء)سے پیش کیا ہے۔ جناب بھٹی صاحب زود نویس اور بسیار نویس تھے، لیکن آپ کا قلم گوہرِ آب دار تھا۔ موتی بکھیرتا تھا نہ کہ آج کل کے اکثر اہلِ قلم کی طرح ادبیت سے عاری مٹھاس سے خالی تحریر اُگلتا تھا۔ آپ کے قلم کے آنسو ہیرے جواہرات بن کر ٹپکتے تھے۔ تحریرات کی کثرت کے باوجود کسی جگہ پر آپ کی تحریر میں ادبی چاشنی کا رنگ پھیکا نہیں پڑتا۔ سلاست و روانی کا تسلسل ٹوٹنے نہیں پاتا۔ قاری کی دلچسپی کم ہونے نہیں پاتی، عبارت کا پھسپھسا پن یا بوجھل پن کے باعث ناگواری ہو، کوئی ایک کتاب نہیں ، بلکہ آپ کی تقریباً ۴۰ کتابیں پڑھنے پر بھی یہ مقام اکتاہٹ سامنے نہیں آتا۔ آپ صرف لکھتے نہیں تھے، علم و عرفان کے موتی رولتے تھے۔ حکمت و دانائی سے لبریز، پند و نصائح سے مملو، زندگی کے تجربات و معاملات کے نچوڑ، تاریخی معلومات، شخصی حالات، غرض ایک سے بڑھ کر ایک پہلو آپ کی تحریرسے قاری کی دلچسپی برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ جیسے رواں ندی کا پانی اٹھکیلیاں کرتا، موجیں مارتا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا قاری آپ کی لطافت و ظرافت کے مزے لوٹتا، حکمت و دانش کے موتی سمیٹتا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بکثرت اور پر تاثیر لکھنے والے اہلِ قلم کے حالات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی تحریروں
Flag Counter