Maktaba Wahhabi

136 - 924
رحمہ اللہ کی عربی زبان کے قواعد و ضوابط اور صرف و نحو پر مضبوط گرفت، عربی الفاظ کے وسیع ذخیرہ، ان کے مصادر و مشتقات پر رسوخ اور عبارت کے سیاق و سباق کے پختہ فہم کا نتیجہ تھا۔ اردو میں تحریر کردہ ہزاروں صفحات آپ کی اردو زبان پر اعلیٰ قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ اس تحریر میں بے ساختہ پن، سلاست و روانی، مٹھاس و چاشنی کے علاوہ واقعات و شخصیات کی نقشہ کشی میں کوئی ایسا سحرہے کہ قاری پڑھتا چلا جاتا ہے۔ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، لیکن ہاتھ لگی تحریر چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ ادھورا چھوڑنے پر جی آمادہ نہیں ہوتا۔ تحریر میں دلچسپی اور روانی ہے، لطافت و ادبیت ہے، اعلی زبان دانی ہے، عمدہ تراکیب وجملے ہیں ، قاری حظ وافر اٹھاتا ہے۔ معتدبہ ذخیرۂ الفاظ قاری کے علم میں اضافی طور پر شامل ہوتاہے۔ تاریخی معلومات اور خاص طور پر برصغیر کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تاریخ، شخصیات و ادارہ جات کے آغاز و ارتقا، عروج و زوال کی داستان اس قدر دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ اک پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں ۔ دلی دعا ہوتی کہ یہ قلم یونہی رواں رہے اور قاری اپنی تشنگی دور کرتا رہے، علمی و تاریخی جواہرات سے اپنے دامن کو مالا مال کرتا رہے۔ کبھی کبھار اپنی تحریر میں پنجابی کا بھی تڑکا لگاتے ہیں اور تحریر کا لطف دو آتشہ سے سہ آتشہ ہو جاتا ہے۔ پنجابی کی بائبل ہیر وارث شاہ پر بڑا عبور تھا۔ اشعار کے بر محل استعمال سے گفتگو یا تحریر کا آہنگ بڑھ جاتا تھا۔ ایک دفعہ اسلام آباد سے واپسی پر راستے میں پنجابی زبان کے فضائل و محاسن با دلائل ثابت کرنے شروع کر دیے۔ جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے: پنجابی میں پنجابن مٹیار کے دوپٹے کی لطافت و نزاکت کو جس طرح تشبیہ و تمثیل سے بیان کیا گیا ہے، دنیا کی کوئی دوسری زبان یہ حق ادا نہیں کر سکتی۔ آپ نے پنجابی ٹوٹا پڑھا: ’’لے کیچنی گنڈے دے پت ورگی۔‘‘ پیاز کے چھلکے جیسا باریک و لطیف اور نازک دوپٹہ لے کر(مٹیار چلی آئی ہے)۔ پنجابی شاعر کے خیال کی لطافت و نزاکت اور تشبیہات و تمثیلات و استعارات پر گرفت قابلِ داد و قابل تحسین، بلکہ لائق صد آفرین ہے۔ کچھ ایسی ہی ادبی چاشنی جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تحریر کا خاصا ہے۔ آپ کی تحریر کے علاوہ عام گفتگو میں بھی سادگی اور بے ساختہ پن کا لطف مزید ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ہمارے چک ۴۶۳ گ ب غریب خانے پر تشریف آوری ہوئی۔ جناب علی ارشد ہمراہ تھے۔ حسبِ استطاعت بھرپور تواضع کی۔ کھانے کا حق ادا کر چکے تو بڑی سادگی اور معصومیت سے فرمانے لگے: ’’علی ارشد! بس کر یار ہون تے کھا کھا کے کے برا حال اے۔‘‘ زندہ دلی کا ایسا ایک جملہ میزبان کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی ہوتا ہے، لیکن ایسا جملہ ہر ایک کو کہنا نصیب نہیں ہوتا۔ آپ کی تحریر اور گفتگو کی سادگی اور بے ساختہ پن کی طرح مزاج بھی سادہ۔ تکلف، تصنع، بناوٹ سے پاک، خواہ مخواہ کی تعلی یا تکبر سے مبرا، مبنی برحقیقت رویہ اپناتے تھے۔ مرحوم علی ارشد صاحب کی بیٹی کی تقریبِ نکاح تھی۔ بارات منڈی یزمان(بہاول پور)سے علی الصبح فیصل آباد پہنچ چکی تھی۔ لیکن علی ارشد صاحب رحمہ اللہ کی کتاب دوستی کی
Flag Counter