Maktaba Wahhabi

135 - 924
جناب محمد عالم مختار حق صاحب رحمہ اللہ کو زحمت دی اور یوں تحقیقی تعاون میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ ایسے حق پرست یعنی تحقیقی معاملات میں اپنے آپ کو ساتھ کھپانے والے آج کہاں ملیں گے۔ اولاً خود پلے کچھ نہیں ، ثانیاً: ظرف نہیں ، ثالثاً: فرصت نہیں ، لیکن جناب بھٹی صاحب جیسی ہستی بارے یہ کہنا بلا سبب نہیں : ع بہتے رون گے دلاں دے جانی اپنی حیاتِ مستعار میں فروری ۱۹۵۰ء تا ۳۰؍ مئی ۱۹۶۵ء تک ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ سے ادارتی طور پر منسلک رہے۔ بعد ازاں ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۶۵ء سے ۱۶؍ مارچ ۱۹۹۶ء تک ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور سے وابستہ رہے۔ اس عرصۂ انسلاک میں مایہ ناز علمی تحقیقی کارنامے فقہائے ہند(جلد اول تا پنجم)و فقہائے پاک و ہند(جلد اول تا سوم)بارے مواد جمع کر رہے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہر روز مختلف لائبریریوں کے چکر ہوتے تھے۔ میں دفتر آتا تو مولانا جعفر شاہ پھلواروی رحمہ اللہ(متوفی: ۳۱؍ مارچ ۱۹۸۲ء)اور مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ(متوفی: ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۷ء)از راہِ مذاق مجھ سے پوچھتے: آج کتنی قلمی کتابوں کی گرد جھاڑی؟ کتنی کتابوں کے سوراخ گنے؟ کتنی کتابوں کے پھٹے ہوئے اور بوسیدہ اوراق کا شمارکیا؟ کتنے مخطوطے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا؟ ایک دن میں نے کہا کہ یہ مخطوطات کیا ہیں ’’مخبوطات‘‘ ہیں ، اور پھر لفظ ’’مخطوطہ‘‘ کو ’’مخبوطہ‘‘ میں بدل دیا گیا، مثلاً: کون کون سا مخبوطہ دیکھا اور مخبوط الحواس ہوئے؟ لیکن فقہائے پاک و ہند کی دس مطبوع جلدیں اگر ایک طرف آپ کے علمی و تحقیقی ذوق و لگن کی آئینہ دار ہیں تو دوسری طرف برصغیر پاک و ہند کے فقہا بارے تعارفی لٹریچر کے طور پر وجہ افتخاربھی ہیں ۔ فقہائے پاک و ہند بارے ایسی جامع کتاب آج تک کوئی مولف کسی زبان میں بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ زہے نصیب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے۔ چوتھی صدی ہجری کے نامور محقق اور مورخ محمد بن اسحاق ابن ندیم وراق(متوفی: ۳۸۰ء بغداد)کی ’’الفہرست‘‘ نامی قدیم ترین انسا ئیکلو پیڈیا طرز کی ادق عبارات کی حامل عربی کتاب کا رواں اردو میں ترجمہ و حواشی آپ کی عربی زبان و ادب پر گرفت کا بین ثبوت ہے۔ کسی دوسری زبان سے ترجمے کے لیے یوں راہنمائی فرمایا کرتے تھے کہ ترجمہ کرتے وقت آپ کے ذہن میں یہ بات راسخ رہنی چاہیے کہ اگر صاحب کتاب اس زبان میں یہ کتاب لکھتے تو ان کی ادبی زبان اور اسلوبِ تحریر یہی ہوتا جو میں نوکِ قلم پر لا رہا ہوں یا سپرد قلم کر رہا ہوں ۔ اس سے عمدہ فکری راہنمائی ممکن بھی نہیں ۔ عربی زبان کی بات چلی ہے تو عرض ہے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ تحدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا کرتے تھے کہ استاد مکرم حافظ الحدیث حافظ محمد گوندلوی صاحب رحمہ اﷲ(متوفی: ۴؍ جون ۱۹۸۵ء)کے سامنے صحیح بخاری کی عبارت میں پڑھا کرتا تھا اور حضرت حافظ گوندلوی صاحب کے سامنے معری( بغیر اعراب کے)عبارت پڑھنا کارے دارد تھا۔ بفضل اللہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کو روکنے ٹوکنے اور عبارت کی درستگی کی نوبت نہ آتی تھی۔ یہ جناب بھٹی
Flag Counter