Maktaba Wahhabi

655 - 924
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی ہائے! کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے مورخِ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ علم و تحقیق کا وہ درخشندہ باب ہیں جس سے تادیر علما و محققین روشنی حاصل کرتے رہیں گے۔ ہمارے ہاں کسی بھی بڑی شخصیت کے انتقال کے موقع پر ایک روایتی فقرہ بولا جاتا ہے کہ ’’ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہوگا۔‘‘ ایک اور رسمی جملہ بھی کسی عظیم دانشور کی وفات پر ادا کیا جاتا ہے کہ: ’’موت العالِم، موت العالَم‘‘ مولانا بھٹی رحمہ اللہ کے انتقال کے حوالے سے یہ دونوں جملے حقیقی معنوں میں استعمال کیے جا سکتے ہیں ، ان کے رخصت ہونے سے واقعتا علم کی دنیا میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، جس کے پُر ہونے کا بہ ظاہر کوئی امکان نہیں ۔ حضرت مرحوم و مغفور قومی و جماعتی اثاثہ تھے۔ ان کی شخصیت اور اُن کی علمی خدمات پر خصوصی مضامین نصاب میں شامل کیے جائیں ، تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے افکار سے مستفیض ہوسکیں ۔ مولانا کی علمی شخصیت اور حیات و خدمات کے جائزے کے لیے ’’ارمغانِ مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘پاکستان کی قومی زبان اردو میں مرتب کیا گیا ہے، لیکن حضرت مرحوم کی خدمات کا اعتراف کرنے والوں میں دنیا کی ہر زبان و قوم اور نسل کے اہلِ علم و فکر شامل ہیں ۔ ان کے مداحین صرف اردو بولنے والوں ہی میں نہیں ، بلکہ ان میں پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کے علاوہ ہماری اسلامی زبان عربی اور بین الاقوامی لینگوئج انگریزی بول چال رکھنے والے بھی شامل ہیں ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ پاکستان کی بعض معروف علاقائی زبانوں کے علاوہ عربی اور انگریزی میں بھی مولانا مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔ ان کی دینی، اسلامی، علمی، عملی، تحقیقی خدمات پر بھی ایک ایک خصوصی مضمون ارمغان میں شامل کیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے زیر نظر باب ’’افکارِ اہلِ سخن‘‘ قائم کیا گیا ہے، جس میں چھے اہم زبانوں عربی، سرائیکی، سندھی، پنجابی اور انگریزی میں مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔ اگرچہ اردو میں خراجِ عقیدت کا سلسلہ بہت طویل ہے، لیکن پھر بھی یہ کتاب شش زبان کہلا سکتی ہے، کیوں کہ اس میں چھے مختلف مگر اہم زبانوں کے اہلِ سخن نے انھیں اپنے اپنے انداز میں اپنی زبان و ادب کے تناظر میں فکری سوغاتیں پیش کی ہیں ۔
Flag Counter